تھے ۔ ان کی طرف خیال کرنا ایسا فراموش ہو گیا کہ کبھی یاد نہ آیا۔ آنمکرم نے ایک دو مرتبہ لکھا بھی مگر پھر بھی بھول گیا۔ اب انشاء اللہ القدیر بقیہ مضمون کو جلد ختم کر کے اس طرف متوجہ ہوں گا۔ بباعث علالت طبع دورہ مرض حافظہ میں بہت قصور ہو گیا ہے۔ دو تین روز سے اس قدر دورہ مرض ہوا کہ ضعف بہت ہوگیا اور کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ مطبع سے بار بار مطالبہ ہے کہ بقیہ مضمون بھیجنا چاہئے مگر طاقت نہیں کہ کچھ لکھ سکوں۔ فضل احمد کا خط نہایت اور غایت درجہ کی التجا سے آیا تھا کہ مولوی صاحب کی خدمت میں سفارش کریں کہ کوئی نوکری میرے گزارہ کے موافق کرا دیں۔ عنہ ۲۰ میں اپنے خیال کا گزارہ نہیں کر سکتا۔ سو اگر مصلحت وقت کا حال آنمکرم کو بہتر معلوم ہوگا لیکن اگر کچھ ہرج نہ ہو اور مصلحت کے خلاف نہ ہو اور کچھ جائز اعتراض نہ ہو اور آنمکرم کچھ اس کی معاش کیلئے اس سے بہتر تجویز کر سکیں تو کر دیں۔ اگرچہ ابھی تک اس کے چال چلن کا حال قابل اعتراض ہے مگر شاید آئندہ درست ہو جاوے۔ ابرار و اخیار جو متخلق باخلاق اللہ ہوتے ہیں کبھی مطابق آیت کریمہ وکان ابوھما صالحاً عمل کر لیتے ہیں۔ اس آیت کریمہ کے مفہوم پر نظر غور ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جن دو لڑکوں کے لئے حضرت خضر نے تکلیف اُٹھائی۔ اصل میں وہ اچھے چال چلن کے ہونے والے نہیں تھے بلکہ غالباً وہ بدچلن اور خراب حالت رکھنے والے علم الٰہی میں تھے۔ لہٰذا خدا تعالیٰ نے بباعث اپنی ستاری کی صفت کے ان کے چال چلن کو پوشیدہ رکھ کر ان کے باپ کی صلاحیت ظاہر کر دی اور ان کی حالت کو جو اصل میں اچھی نہیں تھی کھول کر نہ سنایا۔