یہ عاجز بباعث دورہ مرض و علالت طبع کل لاہور نہیں جا سکا بالفعل میاں جان محمد کو بھیج دیا ہے کہ سلطان احمد کو اسی جگہ لے آوے۔ اس عاجز کی طبیعت سفر کے لائق نہیں۔ مرض دوران سر اور دل کے ڈوبنے کی یکدفعہ طاری حال ہو جاتی ہے۔ پھر موت نصب العین معلوم ہوتی ہے مگر اس وقت تو وہ ہاتھ پکڑ کر کھینچتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔
جو کچھ آنمخدوم نے تحریر فرمایا ہے کہ اگر دمشقی حدیث کے مصداق کو علیحدہ چھوڑ کر الگ مثیل مسیح کا دعویٰ ظاہر کیا جائے تو اس میں حرج کیا ہے۔ درحقیقت اس عاجز کو مثیل مسیح بننے کی کچھ حاجت نہیں یہ بننا چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے عاجز اور مطیع بندوں میں داخل کر لیوے لیکن ہم ابتلاء سے کسی طرح بھاگ نہیں سکتے۔ خدا تعالیٰ نے ترقیات کا ذریعہ صرف ابتلاء ہی رکھا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا امنا وھم لایفتنون
معلوم نہیں کہ آنمکرم نے ابھی تک وہ خطوط جن کا وعدہ آپ نے فرمایا تھا روانہ کئے ہیں یا نہیں۔ رسالہ ازالہ اوہام میں یہ بحث اس قدر مبسوط ہے کہ شاید دوسرے کسی رسالہ میں نہ ہو۔ اگر آپ کی طرف سے کوئی خاص تحریر آپ کی اس وقت پہنچی تو میں مناسب سمجھتا ہوں اس کو رسالہ ازالہ اوہام میں چھاپ دوں۔ مضمون اگر اُردو عبارت میں ہو تو بہتر ہے تا عام لوگ اس کو پڑھ لیں۔ آئندہ جیسا کہ آپ مناسب سمجھیں وہی بہتر ہے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ
۲۴؍ جنوری ۱۸۹۱ء