اور محکمہ نہر میں ڈپٹی کلکٹر تھے۔ خان بہادر بھی تھے۔ خاکسار عرفانی ذاتی طور پر جانتا ہے۔ اس لئے کہ جب وہ محکمہ نہر میں داخل ہوا ہے تو شاہ صاحب اس کے افسر تھے مگر مخلصانہ تعلقات رکھتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے انہیں بہت حسن ظن تھا اور محبت رکھتے تھے۔ یہ دراصل ایک مجمع احباب تھا۔ مرزا امان اللہ صاحب، منشی امیرالدین، منشی عبدالحق، بابو الٰہی بخش، حافظ محمد یوسف، منشی محمد یعقوب صاحب وغیرہم۔ یہ سب کے سب اہلحدیث تھے اور حضرت مسیح موعود کے ساتھ انہیں قبل از دعویٰ مسیحیت ارادت تھی۔ آپ کی خدمات دین کے بدل معترف اور ان میں مالی نصرت اور اشاعت میں حصہ لیتے تھے۔ دعویٰ مسیحیت پر بھی ان کے حسن ظن میں فرق نہیں آیا۔ لاہور میں مخالفت کا زور تھا اور مولوی محمد حسین صاحب کو اپنی اس بااثر جماعت کے جاتے رہنے کا صدمہ تھا۔ اس لئے ان لوگوں نے چاہا تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب سے حضرت حکیم الامۃ کی گفتگو ہو جائے۔ یہ واقعات انشاء اللہ القدیر میں سوانح حضرت میں لکھوں گا۔ اس جلسہ احباب میں شمولیت کے لئے حضرت حکیم الامۃ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو ان ایام میں لودہانہ مقیم تھے لکھا تھا مولوی صاحب لاہور گفتگو کر کے لودہانہ چلے گئے تھے اور ان احباب کی اجازت سے گئے تھے مگر مولوی محمد حسین نے فرار کا تار دے دیا۔ غرض یہ بہت بڑے معرکہ کا مجمع تھا۔ مفتی فضل الرحمن صاحب کے رشتہ نکاح کے متعلق حضرت مولوی صاحب نے مشورہ پوچھا تھا اور یہ تحریک دراصل ۱۸۸۸ء سے ہوئی تھی اور مفتی صاحب کو لے کر حکیم فضل دین صاحب یہاں قادیان آئے تھے اور ایک اور امیدوار خادم حسین نام کو بھی لائے تھے۔ حضرت مسیح موعو دعلیہ السلام نے مفتی فضل الرحمن صاحب کے متعلق مشورہ دیا اور الہام الٰہی نے اس کی