وہ ایسے شخص سے جد اکیا جاتا ہے۔ جس کو وہ اپنے قالب کی گویا جان جانتا ہے۔ لیکن مجھے زیادہ غیرت اس بات میںہے کہ کیا ہمارے حقیقی پیارے کے مقابل پر کوئی اور ہونا چاہئے۔ہمیشہ سے میرا دل یہ فتوی دیتا ہے کہ غیر سے مستقل محبت کرنا کہ جس سے للہی محبت باہر ہے۔ خواہ وہ بیٹا ہو یا دوست۔ کوئی ہو ایک قسم کاکفر اور کبیر گناہ ہے۔ جس سے اگر شفقت ور حمت الٰہی تدارک نہ کرے توسلب ایمان کاخطرہ ہے۔سو آپ یہ اللہ جل شانہ کا احسان سمجھیں کہ اس نے اپنی محبت کی طرف آپ کو بلایا۔ عسی ان تکرھواشیئا وھو خیرلکم و عسی ان تحبوشیئا و ھو شرا ً لکم واللہ یعلم وانتم لا تعملون۔ اوران پر ایک جگہ فرماتا ہے جل شانہ وعزاسمہ ما اصاب من مصیبۃ الا باذن اللہ من ویومن باللہ ……تلیہ واللہ بکل شئی علیم۔یعنی کوئی مصیبت بغیر اذن اور ارادہ الٰہی کے نہیں پہنچتی اور جو شخص ایمان پر قائم ہو۔خد ااس کے دل کو ہدایت دیتا ہے۔ یعنی صبر بخشتا ہے اور اس مصیبت میں جو مصلحت اور حکمت تھی۔وہ اسے سمجھادیتا ہے اور خد اکو ہر ایک چیز معلوم ہے میں انشاء اللہ آپ کے لئے دعا کروں گا اور اب بھی کئی دفعہ کی ہے۔ چاہئے کہ سجدہ میں اور دن رات کئی دفعہ یہ دعا پڑھیں۔ یا احب من کل محبوب اغفرلی ذنوبی و اوخلنی فی عبادک المخلصین۔ آمین۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد از قادیان
۱۵؍ فروری ۱۸۸۸ء
نوٹ۔ مکرمی چوہدری رستم علی صاحب کو سندر داس نامی ایک شخص سے محبت تھی اور وہ اسے عزیز سمجھتے تھے۔ اس کا ذکر مختلف مکتوبات میں آیا ہے۔ پھر محبت میں چوہدری صاحب کو غلو تھا اور یہ بھی ایک کمال تھا کہ وہ اسے محسوس کرتے تھے اور حضرت اقدس کو بار ہا لکھتے رہتے تھے۔ آخر وہ بیمار ہوا اورمر گیا۔ اس پر یہ مکتوب حضرت نے تعزیت کا لکھا۔
(عرفانی)