حضرت سیٹھ صاحب کی زندگی کا ایک واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرمیں حضرت سیٹھ صاحب کی زندگی کے ایک واقعہ کا ذکر حضرت مسیح موعود نے اپنی کتاب تحفہ گولڑویہ میںکیاہے۔ میں اسے بھی یہاں درج کر دیتا ہوں۔ یہ واقعہ حضرت مسیح موعود نے صادق کی شناخت او راپنے صادق ہونے کے ثبوت میں بیان کیاہے چنانچہ فرمایا:۔ ’’سو متوجہ ہو کرسننا چاہئے کہ خواص کے علوم اور کشوف او رعوام کی خوابوں او رکشفی نظاروں میں فرق یہ ہے کہ خواص کا دل تو مظہر تحلبیات الہیہٰ ہوجا ہے اور جیسا کہ آفتاب روشنی سے بھر اہوا ہے وہ علوم اور اسرار نحیبیہ سے بھر جاتے اور جس طرح سمندر اپنے پانیوں کی کثرت کی وجہ سے ناپیدا کنار ہے۔ اسی طرح وہ بھی ناپیدا کنار ہوتے ہیں او رجس طرح جائز نہیں کہ ایک گندے سڑے ہوئے چھپڑ کومحض تھوڑے سے پانی کے اجماع کی وجہ سے سمندر کے نام موسوم کر دیں۔ اس طرح وہ لوگ جو شاذونادر کے طور پر کوی َ سچی خواب دیکھ لیتے ہیں۔ ان کی نسبت نہیں کہہ سکتا کہ وہ نعوذ باللہ ان بحار علوم ربانی سے کچھ نسبت رکھتے ہیں او رایسا خیال کرنا اسی قسم کا لغو اور بہودہ ہے کہ جیسے کوئی شخص صرف منہ او رآنکھ او رناک اور دانت دیکھ کر سور کو انسان سمجھ لے یا بندر کوبنی آدم کی طرح شمار کرے تمام مدار کثرت علوم غیب اور استجابت دعا اور باہمی محبت و وفا اور قبولیت او رمحبوبیت پر ہے ورنہ کثرت قلت کا فرق درمیان سے اٹھا کر ایک کرم شب تاب کو بھی دیکھ سکتے ہیں کہ وہ بھی سورج کے برابر ہے۔ کیونکہ روشنی اس میں بھی ہے۔ دنیا کی جتنی چیزیں ہیں وہ کسی قدر آپس میں مشاہبت ضرور رکھتی ہیں۔ بعض سفید پتھر تبب کے پہاڑوں سے ملتے ہیں اور غزنی کے حدود کی طرف سے بھی لاتے ہیں چنانچہ میںنے بھی ایسے پتھر دیکھے ہیں وہ ہیرے سے سخت مشاہبت رکھتے او راسی طرح چمکتے ہیں مجھے یاد ہے کہ تھوڑا عرصہ گزرا ہے کہ ایک شخص کابل کی طرف رہنے والاچند ٹکڑے پتھر کے قادیان لایا اور ظاہر کیا کہ وہ ہیرے کے ٹکرے ہیں کیونکہ وہ پتھر بہت چمکیلے اور ابدار تھے اور ان دنو ںمیں مدارس میں ایک دوست جو نہایت درجہ اخلاص رکھتے ہیں یعی اخویم سیٹھ عبدالرحمن صاحب تاجر مدراس قادیان میں میرے پاس تھے ان کو وہ پسند آگئے او ران کی قیمت میں پانچ سو روپیہ دینے کو تیار ہو گئے او رپچیس روپیہ یاکم و بیش ان کو دے بھی دئیے او رپھر اتفاقاً مجھ سے مشورہ طلب کیا کہ میں نے یہ سودا کیا ہے۔ آپ کی کیا ہے۔ میں اگرچہ ان ہیروں کی اصلیت او رشناخت سے نا واقف تھا۔ لیکن روحانی ہیرے جو دنیا میں کامیاب ہوتے ہیں یعنی پاک حالت کے اہل اللہ جس کے نام پر کوئی جھوٹے پتھر یعنی مزور لوگ اپنی چمک دمک دکھلا کر لوگوں کو تباہ کرتے ہیں اس جوہر شناسی میں مجھے دخل تھا۔ ا س لئے میں نے اس ہنر کو اس جگہ برتا اور اس دوست کو کہا کہ جو کچھ آپ نے دیا وہ تو واپس لینا مشکل ہے۔ لیکن میری رائے یہ ہے کہ قبل دینے کے پانچ سو روپیہ کے کسی اچھی جوہری کو یہ پتھر دکھلا لیں۔ اگر درحقیقت ہیرے ہوئے تو یہ روپیہ دیں۔ چنانچہ وہ پتھر مدراس میں ایک جوہری کے شناخت کرنے کے لئے بھیجے گئے او ردریافت کیا گیا کہ ان کی قیمت کیا ہے۔ پھر شاید دو ہفتہ کے اندر ہی وہاں سے جواب آگیا کہ ان کی قیمت ہے چند پیسے۔ یعنی یہ پتھر ہیں۔ ہیرے نہیں ہیں۔ غرض جس طرح اس ظاہری دنیا میں ایک ادنیٰ کو کسی جزئی امر میں اعلیٰ سے مشاہبت ہوتی ہے۔ ایسا ہی روحانی امو رمیں ہو جاتا کرتا ہے اور روحانی جوہری ہوںیا ظاہری وہ جھوٹے پتھروں کو اس طرح پر شناخت کر لیتے ہیں کہ جو سچے جوہرات کے بہت سے صفات ہیں ان کی رُوسے ان پتھروں کو امتحان کرتے ہیں آخر جھوٹ کھل جاتا ہے او رسچ ظاہر ہو جاتا ہے۔‘‘