بھی یقین ہو گیا تھا کہ اس قیامت خیز حادثہ سے ضرور ہم ہلاک ہو جائیں گے اور فی الحقیقت او رکچھ تھوڑے سے وقت اگر یہ حادثہ اسی طرح قائم رہتا تو سارا نا کہیں نابود ہو جاتا مگر اللہ کافضل کہ جلد وہ دفعہ ہو گیا اور ہم نے یہ نئی زندگی پائی غرض یہ تو ان واقعات کا ذکر ہے جو اضطراری صورت رکھتے ہیں یعنی انسانی دخل کسی طرح کا ان میں نہیں اور اگر ان امور کی طرف خیال کرتے ہیں جن میں فی الجملہ انسانی دخل ہوتا ہے او رجن کو اختیاری کے نام سے موسوم کرسکتے ہیںتو ان کی حالت زیادہ وحشت خیز نظر آتی ہے بالخصوص تجارتی امور کو دیکھتے اس کے بتلانے کے آگ ہی یہ امر ظاہر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس برٹش حکومت میں ا س کی ترقی کس حد تک پہنچی ہوئی ہے اور اگر سچ پوچھو تو برٹش حکومت کی ترقی کایہی زبردست اصول ہے او رگو یہ زمینی استحکام بھی ہے مگر اس کی حالت اس قدر ابتر ہو گئی ہے او رہوتی جاتی ہے جس کو مفصل بتلانے کے بہت کچھ لکھنا پڑتا ہے اس لئے مختصر کفیت یہ ہے کہ بہت سے بیچارے تو گو کہ مقابلہ سے دست برار ہو بیٹھے ہیں اور گو یہ وقت کاانتظار کر رہے ہیں ا و بہت سے ناتجربہ کاری کے باعث خواب ہو گئے اور جو کچھ حصہ کام رہا ہے اس کی یہ حالت ہے کہ گویا اگر امام شبے مانم شبے دیگر نمی مانم ایسی خوفناک تجارت کی حالت ہے یہ تو میں نے ایک بتلائی جس کا بہت اثر ہے۔ لیکن ساتھ اس کے اگر زراعت اور مزار عین کو دیکھتے ہیں تو تاجروں سے بھی بدتران کو پایا جاتا ہے اور ساتھ ہی حکومتیں اور سلطنتوں کے حالات پر غور کرتے ہیں تو سب سے زیادہ پریشان او رافکاروںکے سمندر عمیق غرق بھنور نظر آتے ہیں غرض علی العموم زمانہ کی حالت بدلی ہوئی نظر آتی رہے اور کیا چھوٹا اور کیا بڑا اپنی اپنی حد پر متفکر اور پریشان ہی نظر آتا ہے گو یہ جمیعت اور طمانیت مفقود ہو گئی ہے اور ساتھ ہی اس کے گویہ مروت محبت وفا یہ باتیں بھی اٹھ گئیں ہیں جب وہ نہیں تو ……کہاں غرض وہ مولیٰ کریم اپنا فضل فرماوے او راپنے بندوں کو نیک توفیق دے تا دقتوںکو پہنچانیں او رسلامتی جس راہ کو صرط مستقیم کہتے ہیں او رجس کے دکھلانے کے لئے حضرت امام آخر الزمان جن کامبارک لقب مسیح و مہدی علیہ اسلام ہے موجود ہو گئے ہیں او ربڑے درد دل سے منادی کررہے ہیں ان کی پیروی نصیب کرے۔ آمین۔ خاکسار عبدالرحمن ۸؍رمضان المبارک ۱۹۱۸ء