اب رہی چوتھی بات کہ امام وقت کی طرف رجوع نہ کرنے کا باعث کس قسم کے آثار وقوع پذیر ہوتے ہیں تو جواب میں یہ گزارش کافی ہو گی کہ عیافرا چہ بیان آج کامل تین سال ہوئے جو قہر الٰہی کے آثار کل دنیا میں آشکاد لہو ہو گئے ہیں مگر خاص کرکے ہند کا حال پوچھو ہی نہیں ابتدا تو طاعون سے ہوئی ہے مگر بعد اس کے کل ان قہر الٰہی کے نمونہ جو وقتاً فوقتاً مخالف منصوب قوموں کے لئے ہوئی جن کاذکر خود اللہ جلشانہ کی کتاب پاک میں موجود ہے ظاہر ہو گئی ہیں او رپھر یہ نہیں کہ ایک وقت دیکھو طاعون کاحملہ باری باری سے کس طرح ہوتا ہے اور پھر یہ گوہنوردو ادل سے ہے او ربعد اس کے قحط کو دیکھو پچھلے سال اس قدر شدت نہ تھی جتنی اس سال میں ہے۔ اخبا ربینوںپر مخفی نہیں۔ اس کے بعد زلرلہ آیا۔ پہلی مرتبہ تو چند ایک پر خطر ناک منظر پر تھا۔ جو خبر گزری او ربنگالہ ضلع رین کلکتہ سے لے کر دار جلنگ پر ایک وقت شدت سے ہوا و رکچھ خفیف سا نقصان بھی ہوا۔ مگر جانوں کی خیر گندی اور بعد اس کے خفیف طور پر مختلف مقاموں پر کچھ کچھ حرکتیں اس کی ہوتی آئیں۔ مگر پچھلی دفعہ جو ا س کا حادثہ ہو اجس کو ابھی چند مہینے گزرے کس قیامت کا ہوا کتنی جانیںتلف ہوئیں اور کتنے مقامات زمین کے اندر دہس گئے۔ علی ہذا القیاس سیلاب کی بابت دیکھے پہلے تو جب یہ چٹگام او راس کے اطراف میں آیا تو کچھ کم نقصان ہوا مگر بار ثانی جوپٹہ ضلع بہاگل پور اس کی نوبت پہنچی تو کیا کچھ خرابی نہ ہوئی۔ صدہا گائوں غرقاب ہو گئے اور بے حساب بندگان خدا اور چارپائے ہلاک ہو گئے جس کا صحیح اندازہ اب تک نہیں ہوا اور کوئی شہر کے اندر پانچ میل کے اندر پانی دس سے بارہ فیٹ چڑھ آیا تھا غر ض اندازہ ہو سکتا ہے کہ کیا کچھ نہ ہو اہو گا۔ آتشرذگی کا حال تو کچھ پوچھا ہی نہیں کوئی ہفتہ شاید خالی نہیں جاتا او رجان ومال کی خرابی نہیں ہوتی اور یہ مسلسل تین سال سے میں تجربہ کر رہا ہوں۔ اب آخیر سال جو اکثر لوگوں میں یہ بھی مشہور تھا کہ قیامت آجائے گی اور ان میں بعض قوموں کا تو یہ خیال تھا کہ اس امر کو بالکل یقینی سمجھے ہوئے تھے جس سے ایک عجیب طرح کا خوف ان پر مستولی تھا جس کا میں نے خود نظارہ دیکھا ہے لیکن علی العموم یہ خوف تھا کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہو کے رہے گا۔ الا ماشا اللہ۔ غرض اس ایک بات کو بھی ذرا عمیق نظر سے دیکھو تو یہ کتنا بڑا نمونہ قہر الٰہی کا ثابت ہوتا ہے غرض آخر الا مراسی تاریخ کے قریب قریب بعض مقاموں پر ایسا ہو اکہ سخت طوفان آیا کہ مکانوں کے اڑ جانے کا خوف ہو گیا اور اکثر مکانوں کی چھت اڑ بھی گئی یہ واقعہ مدراس کے قریب ناگبشن میں ہوا جو ایک بڑا بندر ہے اور سب اخباروں میں اس کا ذکر ہوا تھا اور بعض لوگوں کی زبانی میںنے سنا جو وہاں سے آئے تھے کہ جب یہ حادثہ شروع ہوا اور شدت ہوتی چلی تو ہم کو یقین ہو گیا کہ بے شک قیامت ہی کے آثار ہیں اور حضرت اسرافیل علیہ اسلام کی صور ہے کسی کو باہر نکلنے کی طاقت نہ تھی او رصدہا بلکہ ہزار ہا بڑے بڑے تناور درخت بیچ دین سے اکھڑ گئے اور پختہ مکانات او رچھتیں گر گئے او رہم کو