جناب میں قوی امید رکھتا ہوں کہ وہ اپنے حبیب کی جوتیوں کے صدقے میری مغفرت کرے گا اب دوسری بات یہ کہ ضرورت امام کس حدتک محسوس ہونے لگی سو اس بارے میں صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے اگرچہ اس وجود باجود کوئی بیس برس قائم ہے وہ نہ ہوتا تو یہ دنیا غارت ہوجاتی اور میرا کامل یقین ہے کہ اس کے مبارک وجود کے طفیل جو سراسر رحمت الہی کا مظہر ہے یہ دنیا قائم ہے اور بہت کچھ برکات فیوض آئندہ اس وجود باجودسے اس کو نصیب ہونے والے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ عنقریب وہ تمام باتیں عام طور پر ظاہر ہوجائیں گی۔ اگر چہ خاص طور پر اس کا مشاہدہ کرنے والے مشاہدہ بھی کرچکے ہیں ۔ والحمد اللہ علی ذالک۔ اب تیسری بات یہ ہے کہ اس عالیمنباب امام کی صداقت پر ……اور آسمانی نشان کیا کیا ظاہر ہوئے سو اس کاجوا ب بھی ہے کہ اکثر وہ سب ظاہر ہوگئے ہیں جن کاحدیثوں میں ذکر ہوا ہے اور اکثر اکابر دین دیں اس چودہویں صدی ہی میں نے اس کے ظہور فرماتے کا زمانہ کشفاً اور الیھا ماًظاہر ہو گیا ہے اور وہ اپنی اپنی تصانیف میں اس کاذکر بھی کر چکے ہیں او ران سب باتوں کے مفصل مذکور کے لئے۔ ہمارے امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابیں بھری پڑی تھیںخدا تعالیٰ دنیا کو ان کتابوں کے دیکھنے کی توفیق نصیب کرے۔ تو پھر کسی قسم کا شک بھی نہ رہے گا۔ اب رہی چوتھی بات کہ امام وقت کی طرف رجوع نہ کرنے کے باعث کس قسم کے آثار وقوع پذیر ہونے لگے ہیں۔ تو جواب میں یہی گزارش کافی ہے کہ صیان چہ بیان۔ آج کئی سال ہوئے جوقہر آلٰہی کے آثار دنیا میں ظاہر ہو گئے ہیں۔ مگر خاص طور پر ہند کا جو حال ہوا ہے وہ تو پوچھا ہی نہیں۔ ابتدا تو طاعون سے ہوا ہے مگر بعد اس کے قہر آلٰہی کی وہ مختلف صورتیں جو وقتاً فوقتاً مفضوب پر عذاب کی صورت میں ہوتے نظر آنے لگے ہیں اور وہ تمام عذاب جن کاقرآن شریف میں ذکر ہے کسی نہ کسی صورت میں آنے لگے ہیں دیکھو وبا طاعون کا حملہ باری باری کس طرح ہوتا آیا ہے اور ہنوز روز ادل ہی کا نمونہ نظر آتا ہے پھر قحط کو دیکھئے کہ ا س نے کس طرح ملک کو تباہ کیا اور یہ عمل مطالعہ اخبارات سے بخوبی کھل سکتا ہے۔ پھر زلوں کو دیکھئے کیا انہوںنے دنیا کو کس طرح ہلا ڈالا ہے او ربعض بعض مقامات پر خطرناک خف الارض ہوا ہے اور مکہ سے لے کر وار جلنگ تک ایک خطرناک زلرلہ آیا۔