کہتا تھا جو تمام احباب کی رائے تھی جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے مگر وہ ان کے خلاف مرضی ہوتی تھی او رپھر استخاروں کی طرف جھک جاتے تھے او رمجھے بھی روک رکھا تھا غر ض چار شبنہ کے دن بعد نماز صبح اپنی عادت کے موافق چار اوڑھ کر سو گئے او رچند منٹوں کے بعد جیسا کہ ان کی عادت تھی اٹھے او رفرمایا کہ مجھے بھی جواب ملا ہے کہ مولوی نورا لدین صاحب کے مشورہ پر عمل کرو۔ غرض اس وقت حضرت مولانا مولوی صاحب کو تشریف آوری کے لئے پیغام بھیجا او رحضرت مولانا کے اظہار کے بعد میری طرف مخاطب ہو کر فرمایا کہ آپ تو شاید بیعت کر چکے جواباً میں نے عرض کی کہ مولوی صاحب نے مجھے روک رکھا ہے اور اس کو سن کر مولانا نے فرمایا یا کاش تمنے معاً کر لی ہوتی تو اب تک اس کا کچھ نہ کچھ اثر بھی کر لیتے او رپھر مولو ی صاحب سے کہا کہ پوچھتے کیا ہو؟ درچہ باشی زود باش۔ غرض مولوی صاحب کے مشورہ کے بعد بھی صلاح ٹھہری کہ کل شب جمعہ ہے او رہم دونوں بیعت ہوں جائیں گے او رجمعہ پڑھ کر شبنہ کو روانہ ہو جائیں گے کیونکہ حضور نے وہی دن روانگی کا مقرر فرمایا تھا اس کے بعد مولوی حسن علی صاحب کا یہ حال تھا کہ بار بار فرماتے تھے کہ شب جمعہ تو کل ہے اس سے ان کومطلب یہ تھا کہ ابھی اس میں دیر ہے او ریہاں اتنی دیر کرنے کی برداشت نہیں ہے۔ غرض اسی روز شام کو یہ عاجز او رمولوی صاحب بیعت سے مشرف ہو گئے۔ الحمدللہ علی ذالک۔ اس کے بعد کوئی دو دن ہی ٹھہرنا ہوا اور حضور سے جدا ہوگئے پھرتے پھراتے کوئی ایک مہینہ بعد مدراس پہنچے اور وہاں حضرت مولوی سلطان محمود صاحب بڑا ہی اہتمام فرمایا تھا۔ اسٹیشن سے سیدھا میلاپور لے گئے اور پر تکلف دعوت دی اور ساتھ ہی اس ناچیز کو ایک اڈریس بھی دیا صد ہا مخالف بھی اس وقت جمع تھے۔ میں نے اس اڈریس کے جواب میں کچھ نہ کہا صرف اتنا ہی کہا کہ مولوی حسن علی صاحب تشریف لاویں گے اور مجھ سے بدرجہا افضل بھی ہیں جو کچھ ہم نے وہاں دیکھا اور پایا اس کو وہ خوب ادا کریں گے اور جلسہ برخاست ہوگیا ہے۔ اس کے بعد مخالفت کی آگ بہت تیز ہوگئی یہاں اب اسی سے نہیں مگر یہ ظاہر کرنا ضروری تھا کہ قبل از بیعت میری حالت کیا ہوئی اور ضرورت امام کس حد تک محسوس ہونے لگی اور پھر حضرت امام کی صداقت پر زمینی اور آسمانی نشان کیاکیا ظاہر ہوئے جن پر توجہ نہ کرنے سے کیا نتائج پیدا ہورہے ہیں غرض ان باتوں کو مختصر طور پر ذکر کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے سب سے اول اس امام الزمان علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کرنے کے بعد اپنے اندر جو تبدیلی محسوس ہوئی اس کو مختصر الفاظ میں لکھ دینا کافی ہے ابتدائی عمر کے زمانہ کے بعد زمانہ اوسط اور اس کے بعد لگا تار بیعت جو کچھ اپنی عملی حالت میں نے بتائی ہے اس کا ازالہ ہوتا چلا اور کوئی بیس اور پچیس برس ناگفتنی علتین اور عادتیں جو اپنے اندر تھیں اور جن کی بابت کبھی کھبی خیال کرکے میں رودیا کرتا تھا کہ اے رب ان برائیوں سے نجات کس طرح ہوگی اور مجھے یہ امر ناممکن معلوم ہوتا تھا اور فی الحقیقت اگر میں ہزار کوشش کرکے بھی جان چھڑاتاتو پھر یہ امر ناممکن معلوم ہوتا تھا کہ میری صحت وغیرہ میں کوئی فتور پیدا نہ ہوتا مگر حلفاً لکھتا ہوں کہ بعد بیعت وہ سب باتیں یکے بعد دیگرے ایسے دور ہوگئیں جیسے لاحول سے شیطان بھاگتا ہے اور مجھے تکلیف بھی محسوس نہیں ہوئی اور صحت کا یہ حال ہوگیا کہ گویا ان ارتکابوں کے وقت بیمار تھا اور ان کے ترک کے بعد تندرست ہوگیا اور یہ صرف حضرت حجت اللہ امام ۔۔۔علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاس طیبات کے طفیل نصیب ہوا اور اب اپنے اندر وہ باتیں دیکھتا ہوں کہ بے اختیا ر ہوکر رب کریم و رحیم کا شکر کرتا ہوں اور ابتدائی زمانہ کو بھی اس کے مقابلہ میں ہیچ سمجھتا ہوں۔ فالحمد اللہ علی ذالک اگر چہ میں اب تک اپنے آپ کو گنبدہ بشر سمجھتا ہوں اور اپنے اندر بہت سے عیوب محسوس کرتا ہوں مگر اس مولا کریم کی