او راس نے مولوی صاحب کو بہت کچھ روکا او ربابو محکم الدین صاحب کی کوٹھی تک ہمار اپیچھا نہ چھوڑا اور بلائے بد کی طرح لگا رہا اور وہاں پہنچ کر بھی مولوی صاحب تو ان کونرم جواب دیتے رہے اور وہ زیادہ گستاخ ہوتا چلا یہاں تک کہ آخر مولوی صاحب نے میرے پر حوالہ دے کر اپنی جان چھڑائی جب وہ میری طرف ہوا تو میری دو ہی جھڑکیوں سے گھبرا گیا اور پھر بیٹھ نہ سکا یعنی دفعہ ہو گیا غرض شب ہم نے گزاری او رصبح کو بٹالہ کی راہ لی اور وہا ںپہنچے تو وہاں بھی ایک صدہا ہو امگر ویسے ہی دل پر اثر ہوتا گیا یہاں تک کہ دارلامان کا نظارہ نظر آنے لگا اور جامع مسجد ایک بقعہ نور نظر آتی تھی اس سال بارش کثرت سے ہوئی تھی اس لئے پہنچنے میں دیر ہوئی۔ جب یہاں پہنچے تو میری اپنی یہ حالت تھی کہ ذوق اورمحبت سے بھر گیا تھا او رعجیب و غریب لذت اپنے اندر محسوس کر رہا تھا غرض ہم قادیان پہنچے او رمولانا مولوی نورالدین صاحب کے مدراسہ اور مطب کے پاس ……ہو گئے او رہم دونوں اتر پڑے غروب آفتاب کا وقت تھا مولوی حسن علی صاحب نے نورالدین صاحب سے مجھے تعارف کرایا او رمیں ان سے مصافحہ کرکے پاس بیٹھ گیا اتنے میں کسی نے آکر خبر دی کہ وہ نیا مکان جو تیار ہوا ہے اس میں ان مسافروں کااسباب بھیج دو۔ مولوی حسن علی صاحب اسباب کے ہمراہ اس مکان میں تشریف لے گئے او رمیں نماز عصر پڑھ کر مولوی نورالدین صاحب کی خدمت میں بیٹھا ہی تھا کہ ایک شخص نے آکر خبر دی کہ حضرت اس نئے مکان میں آکر جلوہ فرما ہوئے ہیں۔ تو میں یہاں سے اٹھا اور جلد اس مکان میں داخل ہوا اور میری نظر چہرہ مبارک پر پڑی میں خلفاً گزارش کرتا ہوں کہ حضو رکا سراپا اس وقت ایک نور مجسم مجھے نظر آیا ا ور میں آنکھ بند کر کے حضور کی دستبوسی کرنے لگا او رجوش محبت کے ساتھ میری آنکھوںمیںآنسو نکل پڑے او رحضور اس کے بعد کمال مہربانی اور شفقت سے احوال پرستی فرماتے رہے او رمیرا حال یہ تھا کہ اندر ہی اندر مولو ی حسن علی صاحب کو ملامت کرتا تھا کہ انہو ںنے حضور کی ظاہری وجاہت کیا بتائی تھی اور یہاں کیا نظر آرہا ہے اور منتظر تھا کہ حضور یہا ںسے تشریف لے جائیں تو ان کی خبر پورے طور سے لوں یہ میر اخیال ہو چکا اور حضور اقدس داشرف بھی اسی وقت اندر تشریف لے گئے او رجونہی مولوی حسن علی صاحب سے مخاطب ہوا۔ انہوں نے بلند آواز سے اللہ اکبر کہا او رفرمایا کہ خدا کی قسم یہ مرزا نہیں جو کچھ برس پہلے میں نے دیکھا تھا یہ تو کوئی او رہی وجو د نظر آرہا ہے غرض کہ ظاہری وجاہت میں بھی حضور کی پرانی ترقی انہوں نے بیان فرمائی اور اسی وقت کہہ دیا کہ بے شک اب یہ وہی نظر آرہے ہیں جس کا ان کو دعوی ہے اور مجھے کہا کہ بے شک تم بیت کر لو۔ چونکہ میں نے اپنی بھی ان سے عرض بتائی تھی کہ فقط اس لئے آپ کو ساتھ لیتا ہوں کہ موقع پر آپ مجھے نیک او رمیرے مناسب مشورہ دیں پس اسی طرح انہوں نے مجھے فی الفور کہہ دیا اور میری اندورنی حالت یہ تھی کہ اگر ایک نہیں ہزار دفعہ یہی اس کے خلاف اگر وہ مشورہ دیتے تو میں حلقہ بگوش ہوئے بغیر اس مبارک آستانہ سے جدا نہ ہوتا۔ مگر الحمداللہ کہ فی الفور مولوی صاحب نے میری دلی آرزو کے مطابق کہہ دیا لیکن ان کا خاص ارادہ بالکل اس امر پر نہ تھا ان کے لئے سب ہمارے مدراسی بھائیو ں کی یہ رائے تھی۔ اگر مولوی صاحب کی مرضی بھی آجائے پھر بھی مصلحت کو ہاتھ سے نہ چھوڑیں چونکہ اس وقت کی مخالفت بڑی سخت تھی او رمولوی صاحب سے ابھی وہاں بہت کچھ ہونا باقی تھا۔ اس لئے میں خود اس وقت اس امر کے مخالف تھا مگر مولوی صاحب پہلے ہی نظارہ میں زخمی ہو گئے تھے اس لئے وہ بجائے خو دبڑی تشویش میں پڑ گئے او راستخاروں پر استخارہ کرنے لگے اور یہی فرماتے تھے کہ مجھے کچھ پتہ نہیں لگتا کہ میں کیا کرو ںاس کے جواب میں میں لودہی