غرض وہاں مولوی صاحب سے میں نے کہا کہ سب سے بہتر یہی بات ہے تم میرا ساتھ دو اور میں آپ کے ہرقسم کے اخراجات کا کفیل اور ذمہ دار ہوں جوکچھ امتحان کرنا ہے وہاں جاکر کیا جائے اس میں بڑے بڑے فائدے ہیں روبرو جاکر جو چاہیں پوچھ سکتے ہیں اس سے خلق خدا کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ کیونکہ آجکل جو طوفان بے تمیزی پھیل رہا ہے اس سے خلق اللہ کو نجات ہوگی اور میں آپ کو اس لئے تجویز کیا ہے کہ بظاہر آپ کے مزاج میں حق پسندی ہے اور تمہارے طالب علمی کے زمانہ سے میرا یہ حسن ظن ہے۔ پس آپ تیار ہوجائیں جمعہ کے دن یہاں سے روانہ ہوجائیں گے مگر ان کو یہ کب منظور تھا۔ ان کو مخالف میں اس وقت صریح فائدہ نظر آتا تھا غرض انہوں نے انکار کردیا اور واپس چلاآیا۔ اسی خیال میں تھا مولوی حسن محروم صاحب یاد آگئے اور وہ ان دنوں مدراس آنے والے بھی تھے کیونکہ انجمن کی طرف سے سالانہ جلسہ کی دعوت ان کو ہوئی تھی اور انجمن کے دراصل بانی وہی ہی تھے۔ لیکن اتفاق ایسا ہوا کے بھاگپور مولوی صاحب نکل چکے تھے اور یہاں دو مہینے کے لئے جلسہ ملتوی ہوگیا اس لئے مجھے یہ موقع خوب ہاتھ آیا اور فی الفور میں نے بمبئی کی اپنی دوکان پر تار دی کہ مولوی صاحب کو ٹھہراؤ اور میں آتا ہوں یہ تار دے کہ می بنگلور گیا اور رات کو اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ میں ارادہ کر چکا ہوں اب تو عالم الغیب اور بہتر جانتا ہے میرے لئے جو بہتر ہے وہ مہیا کر صبح کو حسب معمول ناشتہ کرکے گھر سے باہر چبوترہ پر آکر بیٹھا کہ اسی وقت ڈاک والا آگیا اور اس نے ایک چھٹی اور اس کے ساتھ ایک رسالہ الحق دیا میں نے رسالہ کو کھولا تو میری نظر سب سے پہلے اس ہیڈنگ پر پڑی جو ایک ’’بھاری بشارت ‘‘ سے موسوم تھا اور مضمون اس کا جھنڈے والے پیر صاحب کا واقعہ اور خلیفہ عبداللطیف اور عبداللہ عرب کا حضور اقدس میں حاضر ہونے کا تھا۔ غرض اس کے بعد میرا عزم مصم ہوگیا اور اسی روز شام کو مدراس اور دوسرے روز مدراس سے بمبئی روانہ ہوگیا اور مولوی حسن علی مرحوم صاحب سے ملاقات ہوئی اور چلنے کی بابت گفتگو ہوئی مولوی صاحب مرحوم نے حق مغفرت کرے جو اب میں یہ فرمایا کہ میں آپ کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہوں۔ مگر ایک شرط سے میں نے کہا وہ شرط فرمائے انہوں نے کہا کہ اس سفر میں جب تک آپ کا اور ہمارا ساتھ ہے آپ نماز کی پابندی ملحوظ خاطر رکھیں بس یہی پہلی شرط ہے جس کو میں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ دوسرے روز علی گڑھ روزانہ ہوگئے اور وہاں کے حالات پر غور کیا تو یہ ایک دوسری دلیل ضرورت امام کے لئے ہاتھ آگئی یعنی دو نمونے دیکھں ایک تو اسٹریچی ہال جس میں یورپین انداز کا نقشہ تھا جو زبان حال سے کہہ رہا تھا کہ جو یہاں داخل ہوگا وہ ضرور ایک نہ ایک دن یورپین انداز کا جنٹلمین ہوجائے گا اور دوسرا نمونہ مسجد کا دیکھا جس کی ظاہر صورت یہ تھی کہ ایک دو پھٹے پرانے بوریئے اور دو چار ٹوٹے پھوٹے لوٹے گویا زبان حال اس کا یہ مضمون ادا ہورہا ہے کہ جو میری طرف رکوع اور سجود کے لئے مائل ہوگا اس کا بساط پھٹے بورئیے اور پھوٹے ہوئے لوٹے کہ سوا آگے وہی یعنی اللہ خیر صلاً غرض یہ دونوں نظارے ایک عبرت لینے کے باعث میرے لئے ہوئی۔ پھر وہاں سے سیدھا قادیان شریف کا ارادہ ہوا ہمارے مولوی صاحب نے بہت کچھ قال قرآن میں دیکھے اور استخارہ بھی کئے غرض ہر ایک پہلو پر بھی ان کو جواب ملا کہ چلیئے چلئیے۔ غرض روانہ تو ہوگئے مگر مولوی صاحب کا شروع سے آخیر تک یہی بیان رہا کہ مرزا صاحب بڑے نیک آدمی ہیں۔ مگر ان کا یہ دعوی ان کو ظاہری وجاہت سے بہت کچھ بڑھا ہوا ہے ۔ میں اس کے جواب میں کہتا تھا کہ اب جو کچھ ہے وہاں پہنچ کر ہی ہوگا۔ جب امرتسر پہنچے تو وہاں مولوی محمد حسین صاحب کا کوئی چیلا ہم کو مل گیا