فرق ہو گا مگر اس کے پڑھنے سے میرے پر جو صدمہ گزرا او ررنج ہوااس کو خد اہی جانتا ہے او رابھی تک میں اس کو بھولا نہیں غرض اس کے بعد میں نے حضور کی کتابیں ایک طرف ڈال دیں اور ایسی چالوں سے اور او داسی میرے پر چھا گئی کہ کچھ نہیں لکھ سکتا باوجود اس کے بھی ہونے سے صدہا لوگوں کو میں نے گویا یہ خوشخبری پہنچائی تھی او راب گویا اس کے خلاف اخباروں میں شائع ہو گیا ہے غرض اس مضمون کے دیکھنے کے بعد دوسرے یا تیسرے دن بمبئی سے میرے بھا ئی کا تار آیا او میں روانہ ہو گیا اور وہاں سے اپنے دوست سے افسوس ناک دل سے میں نے یہ تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ تو اپنے دعوے پر قائم ہیں چنانچہ ان کے ایک خاص مرید یہاں آئے ہوئے ہیں او ران کی زبانی مجھے یہ سب کچھ معلوم ہوا ہے اب اس موقع پر مجھے جو خوشی ہوئی گویااس رنج سے وہ چند زیادہ تھی او روہ مرید گویا ہمارے شیخ رحمت اللہ صاحب تھے جن سے دوسرے روز میری ملاقات ہو گئی او رمفصل حالات بھی معلوم ہوئے اور کتاب آئینہ کمالات اسلام کی خبر پا کے انہیں کو میں نے جلدوی پی مدراس کے پتہ پر روانہ کرنے کے لئے فرمائش دی اور میں مدراس واپس گیا اس وقت یہ کتابیں پہنچ گئی تھیں۔ غرض پھر اسی طرح میں اس کا چرچا کرتا رہا اور سلطان محمود صاحب اور ان کے برادر زادہ اپنی جگہ پر باہم اس بارہ میں بحث کرتے تھے اور آخر وفات عیسیٰ پر دونوں کا اتفاق ہوگیا اور سلطان محمود صاحب نے مجھے خط لکھا او رحضور کی کتابوں کی خواہش ظاہرکی اس خط کے طرز تحریر سے یہ پتہ لگ گیا کہ حضور کی جانب سے ان کاحسن باطن ہے غرض میرے پاس جو کتابیں موجود تھیں وہ تو بھیج دیں او رآئینہ کمالات اسلام ایک مولوی کو دی تھی ان سے لینے کو لکھ دیا اور پھر میں ملاقات کی اور میرے سے زیادہ ان کامیلان حضور کی طرف پایا اور اس وقت تک وفات عیسی پر مجھے کامل یقین نہ ہو اتھا۔ مگر ان کے دوستوں مولویوں سے غرض ان کا حضور کی رجوع کرنا بڑی تقویت کا باعث ہو گیا اور قلیل عرصہ میں ایک چھوٹی سی جماعت تیار ہو گئی ہے او رشہر میں زور شور کے ساتھ اس کی شہرت ہونے لگی یہ وقت تھا کہ ان مولویوں ا ورملانوں کی اچھی طرح سے قطعی کھلنے لگی اور ان کی اندورنی حالت کا پورا اظہا رہونے لگا جس کی وجہ سے حضور کی طرف کمال درجہ کا یقین بڑھتا گیا یہا ںتک کہ حضور کی خدمت میں خط لکھا گیا او رجس قدر لوگ اس وقت تک اس سلسلہ میں شریک ہوئے تھے ان سب کے دستخط لئے گئے بعد اس کے جو کچھ ان ملانوں کا حال دیکھا وہ احادیث کے موافق تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں پہلے سے بطور پیشگوئی بتا رکھی تھیں۔ عوام میں ایک خطرناک جوش ان کے دجل او رکذب سے پھیل گیا اور اب یہاں کے مسلمانوں کے اسلام کا حال ایک نئے رنگ میں ظاہر ہونے لگا۔ ضرورت امام پر میرا یقین بڑھتا گیا او رحضور کی زیارت کا شوق دن بدن بڑھنے لگا اور اس فکر میں ہوا کہ کوئی رفیق مل جائے تو روانہ ہو آئوں۔ وہاں کے ایک مولوی جن سے زیادہ تعلق تھا او رجو بظاہر منافقانہ طریق پر ملتے جلتے بھی تھے مگر باطن میں پورا دشمن تھا جس سے میں اب تک نا واقف تھا۔ ان کو ساتھ لانے کی صلاح ہوئی۔ وہ ترملکہڑی کی جامع میں رہتے تھے جہاں میں گاڑی میں سوا رہو کر گیا اور حاجی بادشاہ کے مکان پر موجود بھی اندورنی احاطہ مسجد ہی میں واقعہ ہے ملاقات ہو گئی او رمذکورہ بادشاہ صاحب وہاں کے ایک مشہور اور نامی تاجر ہیں ان مولوی صاحب نے ہماری مخالفت اختیار کرنے کے بعد وہا ںاپنے قدم جمانے شروع کردئیے یہ بادشاہ صاحب بھی اگرچہ مخالف تھے لیکن چونکہ قدیم سے ان کے بزرگوں کے ساتھ میرا کمال درجہ کا ارتباط تھا۔ اس لئے بظاہر ان سے وہی سلوک قائم تھا اور اب تک بھی باقی ہے