کا خوب پتہ مل جاتا تھا یہ تو عام مفید کاموں کے جلسہ کا حال ہوا اب خاص خاص قسم کے لوگو ںکے جلسے اور تقریبات کا حال جس کا مجھے تجربہ ہو اہے لکھنے بیٹھوں تو بہت طو ل ہوتا ہے اس لئے صرف ہماری تجارت پیشہ لوگوں ہی کا مختصر حال لکھتا ہوں کہ مجھے ہمیشہ سے یہ اررذو رہی کہ زیادہ نہیں صرف دومسلمانوں تاجروں کے کسی تجارت کے کام میں اتفاق اور ایک دلی سے کام کرتے دیکھوں جس سے وہ نتیجہ جو اتفاق کے لئے لازمی ہے ان کو حاصل ہو ا ہو لیکن یہ میری آرزو نا تمام ہی رہی یوں تو بہتوں کو اتفاق کرتے دیکھا مگر انجام اس کا ایک تھوڑے ہی عرصہ کے بعد بدنظر آیا کہیں تو کورٹ کچہری میں خراب ہوتے دیکھا او رکہیں ہمیشہ کے لئے عداوت او رکہیں ہمیشہ کے لئے آپس میں کمٹپشین پڑ گیا او ردونوں کو خرا ب کر دیا غرض اس طرح کے بہت تجربے اور مشاہدے کے بعد میرا یہ دستور ہو گیا تھا کہ جہاں کہیں کسی امر کے متعلق بھی ہو مسلمانوں کی مجلس ہوتی تو پہلے اس مجلس میں دعوے سے میں کہہ دیتا تھا کہ مجھے ایک مدت دراز سے یہ آرازو ہے کہ مسلمان اپنی مجلس میں کامیاب ہوتے ہوئے دیکھوں۔ مگر میری یہ آرزو پوری نہ ہوئی او رمیری یہ عادت مدراس تک ہی محدود نہ تھی جہاں کہیں جانے کا اتفاق ہوتا تھا۔ یعنی بمبئی۔ بنگلور۔ مدراس۔ نیلگری تو موقعہ پر ضرور یہ کہہ دیتا تھا او رپھر مخاطب بھی ہوجاتے تھے۔ غرض مسلمانوں کے حالات او رعادات پر ہمیشہ رنج ہوتا ہی رہتا تھا۔ یورپ کے نو اتحاد اور اتفاق کا کہنا ہی کیا ہے اکثر کام ان کے اتفاق اور شرکت او ریک دلی کی بدولت ترقی کے انتہائی نقطہ تک پہنچے ہوئے ہیں مگر اس صورت میں بھی مسلمانوں کے سوا دوسری قوموں میں پھر بھی کچھ نظر میں آجاتا ہے چوہڑے چمار بھی اپنی بساط کے موافق کبھی نہ کبھی کسی کام میں متفق ہو جاتے ہیں مگر مسلمانوں اس کے برخلاف کیا عام کاموں میں او رکیا خاص میں پہر وہ دینی ہو یا دینوی اور کسی ملک میںبھی یعنی عرب عجم ہندو اور سند دکھن او ر کوکن جہان تک مجھے علم ہے ایک نمونہ بھی نظر نہیں آتا غرض ہر ایک موقعہ پر مسلمان بہت ہی کم نظر آتے ہیں اور کسی جگہ اتفاق سے کوئی مسلمان سرکاری کام وکاج میں کوئی اعلیٰ مرتبہ پر آجاتا ہے تو گویا اس کے لئے یہ مثال موزوں ہو جاتی ہے کہ مورہمان بہ کہ بناشد پرش الا ماشا ء اللہ غرض یہ میرے خیال اور مشاہدے پریشان ہی نہیں بلکہ استعجاب میں بھی ڈال دیتے تھے کہ یااللہ اسلام تو تیرا ہے مگر مسلمانوں کی حالت ایسی زار در قابل عبرت کیوں ہو گئی ہے کوئی ایک پہلوان کا یعنی کیا عبادت او رکیا معاملات سیدہا او رحق پر نظر نہیں آتا او ر حالت ایسی ہو گئی ہے بجز تیرے فضل کے یعنی مردے از غیب بروں آید کارے یکندے او رکوئی رستگاری کی صورت نظر نہیں آتی غرض اسی حالت میں حضور کی کتاب فتح اسلام کو میں نے سنا او راندر کا اندر ہی باغ باغ ہو گیا کہ آخر خدا نے ایک کو کھڑا ہی کر دیا او رپھر اسی کو جس کا زمانہ رسول کے بعد وقتاً فوقتاً انتظار ہوتا رہا اور کئی جھوٹے مدعی بھی اس نام کے زمانہ قرب زمانہ رسول سے ہوتی آئی مگر اب تو گویا عین وقت پر اور وہ بھی اشد ضرور ت کے وقت ہی آواز آئی ہے۔ سو یا اللہ تو اس آواز کو سچی اور مسلمانوں کے لئے مبارک ثابت فرما آمین ۔ یہ میری اندرونی حالت تھی اور میرے محروم بھائی نے تو گویا با آواز بلند شہادت بھی دے دی اور الحمد اللہ والمنتہ کہ خدا تعالیٰ نے ویسا ہی ثابت کردکھایا اور باغ اسلام میں دوبارہ گئی ہوئی بہار اور رونق آتی چلی ہے غرض اس موقع کے بعد کتابیں بھی آگئیں اور اس کے پڑھنے سے فہم کچھ کچھ بڑھتا گیا اور مدراس میں چرچا بھی ہوتا چلا۔ جو یک بیک ایک اخبار نام لکھنوسے شائع ہوتا تھا۔ اس میں یہ لکھا ہوا دیکھا کہ مرزا قادیانی ……اپنے دعوے مسیحیت سے دست بردار ہوگئے اس لئے اب پھر ان کی عزت وہی قائم رہ گئی جو اس دعوی کے قبل تھی یہ مضمون تھا عبارات میں کچھ