پا س بیٹھا ہوا تھا ایک منشی صاحب بھی اس وقت پا س بیٹھے تھے اِدھر اُدھر کی بات چیت ہورہی تھی او رموجود زمانہ کی حالت زار کا ذکر ہو رہا تھا او راسی اثنا میں میرا چھوٹا بھائی محمد صالح جو ایک روز پہلے سے بنگلور آیا ہوا تھا۔ وہاں آگیا او رایک کتاب بھی ساتھ لایا اور وہ یوں کہنے لگا کہ یہ کتاب مجھے میرے سیالکوٹ ( پنجاب) سے غلام قادر فصیح نے بھیجی ہے اور قابل پڑھنے او رسننے کے ہے یہ کہہ کر انہوں نے اس کا پڑھنا شروع کیااو روہ کتاب حضور اقدس کی پہلی کتاب دعوی مسیحت اور مہدیت کے بعد کی تھی جس کامبارک نام فتح اسلام ہے غرض ا س کتاب کے کوئی دو دو ورق پڑھنے کے بعد میرے دل پر اس قسم کا اثر ہو امیں اس کو بیان نہیں کر سکتا مگر میرے بیمار بھائی زکریا مرحوم نے اسی وقت ایک جوش کے ساتھ باآواز بلند کہہ دیا کہ خد اکی قسم یہ بے شک وہی ہیں او ر ان کا کلام اس کی پوری شہادت دے رہا ہے۔ غرض ان کے ا س کہنے پر میں او روہ منشی صاحب بھی میرے ساتھ ہم آواز ہو گئے کہ بے شک یہ کلام کوئی نرالہ دل پر اثر کررہا ہے او رپھر دیر تک اس کو سنتے رہے یہاں تک کہ اوّل سے آخرتک ا س کو پورا سن لیا او رمجھے حضور کی طرف پورا پورا یقین ہو گیا۔ مگر مسیحت کے دعوے پر کچھ تعجب سا ہو رہا او راس کے ساتھ یہ خیال بھی کہ مسیح کے لئے تو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ زندہ آسمان پر موجود ہے اور پھر اپنے وقت پر وہاں سے نزول فرمادیں گے او رکسی طرح کا اس میں اختلاف نہیں غرض اس وقت یہ فیصلہ کیاکہ خواہ کچھ ہی ہو مگر کتابیں تو سب منگوا کر دیکھنی چاہیئں اور اس طرف مرحوم بھائی کا بار بار یہ کہنا کہ یہ بے شک اپنے قول او رصادق ہیں او ربہت جلد لوگو ں پر یہ امر کھل جائے گا حالانکہ ان کی بہت ہی کم استعداد تھی مگر جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے بڑے ہی ذکی الطبع تھے اور ان کی طبیعت ملانو ںاو رپیرزاوں سے ہمیشہ متنفر رہا کرتے تھے یہاں کہ ایسی کبھی مجھے کسی سے ملتے ہوئے دیکھ لیتے تھے تو صاف کہہ دیتے تھے کہ آپ کو ان مکاروں سے ہمیشہ دور رہنا چاہئے ان کی صحبت میں کبھی خیر نہیں حضور اقدس کی کتاب کو سنتے ہی ان کا یقینا قبول کر لینا ان کی کمال فراست کی پوری دلیل تھی۔ غرض میں دوسرے دن مدراس کو روانہ ہوا اور یہاں پہنچ کر سب کتابو ںکے لئے خط لکھوائے او رجس کسی سے ملاقات ہوتی ان سے یہ تذکرہ کرتا او رپھر ساتھ ہی موجودہ وقت کی ہر قسم کی برائیوں کی طرف ان کی توجہ دلاتا او راس وقت تک میری نظر صرف مسلمان تک ہی محدود تھی۔ یعنی ہر طبقہ کے مسلمانوں کی ہی حالت پر میری نظر تھی جس کے مشاہدہ سے ہمیشہ دل کو درد پہنچتا تھا۔
جب کبھی عام مفید کام کے لئے جلسہ ہو جاتا تو پھر چند حضرات موجود ہوتے تھے ان کی صورت او رسیرت طرز گفتگواور پھر ایک دوسرے کو باہم دیکھا جاتا ا س کی بابت ذکر کروں تو شاید طویل ہوتا ہے مگر مختصر الفاظ اس کے یہ ہیں کہ پوری پوری یہودیت ثابت ہو جاتی تھی یعنی جس غرض کے لئے جلسہ کیا وہ تو نا تمام اور تمام ہو بھی کس طرح جب ایک دوسرے کی رائے کے تابع ہونے کو ایک سبکی اور ذلت کا بموجب سمجھا جاتا ہو آخری جو کچھ اس جلسہ سے نتیجہ حاصل ہوتا وہ یہی کہ دو چار صاحبوں میں ……تو ضرور ہمیشہ کے لئے نقاق پڑھا جاتا او رباقی بھی ایک دوسرے پر کچھ نہ کچھ الزام لگائے بغیر خالی نہ رہتے غرض جو صاحب صاحبوں اس جلسہ کے بانی ہوتے ان کو بجز خفت کے کچھ حاصل نہ ہوتا او رپھر ہمیشہ کے لئے شاید دل میں عہد کرلیں کہ آیندہ کبھی ایسی بے جا حرکت نہ کریں گے غرض یہ اس قسم کی مجلسیں تھیں جن میں ہر قسم کے اور طائفہ کے لوگ جمع ہو جاتے تھے عالم۔ مولوی خاندانی بیسپاری نوکری پیشہ زمیندار وغیرہ وغیرہ گویا سب قسم کے لوگوں کا مجموعہ ہوتا ہے او رہر ایک قسم کی طبیعتوں کا او راخلاص