ہو گئے تھے غرض انہوںنے میری بات نہ سنی اور خرابیو ںمیں مبتلا ہو گئے اور اکثر میں اب تک ایسا ہی دیکھتا آیا ہوں یعنی جس پہلو کو کچھ مدت پہلے جیسا میںنے تصور کیا تھا آخر وقت پر وہ ویسا ہی ثابت ہوا او راس سے یہ امر میری طبیعت میں پید اہو گیا کہ ایک چھوٹی سی بات پر بھی زیادہ غور کرتا او رایک ادنی کام کو بھی سوچے کرنا میری طبیعت کے خلاف ہو گیا او رہر پہلو سے زمانہ کو نازک سمجھنے لگ گیا۔ اسی عرصہ میں کچھ خسارہ بھی اٹھایا او رکچھ لوگوں کے حالات کا تجربہ بھی ہو گیا۔ غرض یہ کہ جیسا کہ میں نے کسی قدر تفصیل کے ساتھ ابتدائی عمر کے حصہ کو خیرو خوبی کا مجموعہ بنایا ہے اس سے وہ چند زیادہ شرو فساد کا مجموعہ اپنی عمر کے آخری حصہ کے زمانہ کو میں نے پایا او ر اگر اس کی تفصیل لکھنے بیٹھوں تو شاید میرے ذاتی تجارت کی ایک بڑی کتاب بن جاوے اور میں نے ہر ایک پہلو کو نہ فقط اپنے ہی تجربہ او رمشاہدہ پر چھوڑا۔ بلکہ ہر ایک پہلو کے پختہ کار لوگوں کی شہادت بھی میں نے لی اور ہمیشہ ایک خوفناک حالت زمانہ میں زندگی بسر کرتا رہا اور خاص کر تجارت کی حالت گذشتہ دس سال سے ایسی نازک ہوتی چلی آئی کہ ہمیشہ زوال عزت و ناموس عزت کا دھڑکا دل کو لگا رہتا اور شاید ۱۸۹۱ء اور ۹۲ء میں دو لاکھ روپے کا خسارہ مجھے ایک ایکسچینج میں مجھے بھگتنا پڑا۔ مگر خد اتعالیٰ نے مجھے ٹھوکر سے بچا لیا الحمداللہ علی ذالک۔
غرض اس کے بعد میں ہمیشہ تفکرافت کے دریا میں ڈوبا رہا او رزندگی گویا تلخ معلوم ہوتی تھی ایک طرف تو معاملہ کی کچھ ایسی حالت دوسری طرف کچھ اپنی سیہ کاریاں اور تیسرا یہ کہ جس پہلو کو ایک راحت کا موجب سمجھ کر اختیار کیا جاتا دونوں سے بجز نقاق اور بد ایشی کے کچھ نظر نہ آتا۔ وہ راحت جس کو حاصل کرنامقصود کرتا وہ تو رہی ایک طرف باقی رنج پہلے سے وہ چند ہو گیا۔ غرض میں یہ سچ سچ عرض کرتا ہوں کہ ایسی حالت دیکھ کر میں موت کو زندگی پر ترجیح دیتا تھا اور کسی کسی وقت میں اپنی سیہ کاریوں کے قصور میں رو پڑتا تھا اور اپنے آپ کو بد ترین مخلوق سمجھتا تھا او رباقی میری طبیعت میں غیر کا لحاط ابتدائے عمر سے چلاآیا ہے وہ آخیر تک رہا کسی کو بھی کسی قسم کا بھی آزار نہیں پہنچنا میں بڑا خطرناک یہ سمجھتا تھا اللہ تعالیٰ سے اکثر اس امر کی توفیق طلب کرتا تھا کہ وہ مجھے کسی کے آثار کا موجب نہ بناوے غرض اسی حالت میرے بھائی حاجی ایوب فوت ہو گئے تھے۔ مگر زکریا میرے ساتھ تھے بمبئی میں ان کی عزت ہر ایک طرح سے اچھی تھی تجارتی کاروبار میں ……مالی تائید ان سے ہی ملتی تھی اب ان کابیمار ہونا دو طرح کا رنج کا باعث ہو گیا جس کے سبب سے بڑی پریشانی رہی کرتی تھی اور یہ قریب قریب وہی زمانہ ہے جس میں میں نے دو لاکھ روپے کے خسارہ کا ذکر کیا ہے غرض جب ان کی علالت زیادہ ہو گئی تو میں نے بنگلور میں ایک مکان خریدا او رتبدیل آب وہوا کے لئے ان کو یہاں لے آیا۔ ہر ہفتہ میں دو دن ان کے پا س رہتا او رباقی دن مدراس میں۔
دوسرے افکار کا بوجھ جو اس وقت میرے سر پر تھا ا س کاذکر میں کچھ نہیں کرتا۔ بس اتنا ہی کافی سمجھتا ہوں کہ میں کہہ دوں۔ دل من داندو من دانم وداند دل من۔
غرض ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ میں جمعہ کی شام کو مدراس سے چل کر ہفتہ کی صبح کو بنگلور پہنچا او ربھائی کے