ہمارے چچا نے زندگی تک رفاقت کی رہائش او رتجارت میں اس وقت شاید پچیس کے قریب آدمی ہمارے کنبے میں ہوں گے جو ایک ہی مکان میں رہتے تھے کوئی تین روپیہ کرایہ کاماہوارتھا جس میں اچھی طرح سے اوقات بسری ہوتی تھی میرے چچا شاید تین روپیہ اور میرے والد پندرہ روپیہ ماہوار خرچ کے لئے اٹھایا کرتے تھے ہر ایک چیز ارزان تھی گھی کی شاید دو سوا دو روپیہ فی من قیمت اور عمدہ سے عمدہ چاول کی قیمت پونے دو سے دو روپیہ تک فی بستہ تھی۔ علی ہذا القیاس ہر ایک خوردنی چیز کا یہ حال تھا او راس زمانہ میں جو لذید غذائوں کا استعمال ہوا کرتا تھا آج اس کانام ونشان بھی نظر نہیں آتا۔ ہمدردی اپنے اور بیگانے سے ایسی تھی کہ شادی در غمی دونوں پہلوئوں کااثر صاحب خانہ کے برابر دوسروں پر ہوتا تھا۔ خیراتی کاموں کی نگرانی صدق اور اخلاق او رمحبت سے ہوا کرتی تھی بدستور فقرا اور علماء میں میر چشمی نظر آتی تھی او رطالب ضرور ایک حد تک مستفیص ہوجاتے تھے۔ ادنی درجہ کاآدمی یعنی ایک دو روپیہ کامعاش رکھنے والا بھی خورم و خندق نظر آتا تھا مروت ؔ محبتؔ۔ صدقؔ۔ اخلاقؔ۔ حیاؔ۔ شرمؔ۔ حفظؔ مراتب۔ ہمدرؔدی ہر ایک قسم کے لوگوں میں پائی جاتی تھی گویاآسمان سے خیروبرکت کی بارش برس رہی تھی علی العموم جمیعت خاطر کے آثار نظر آتے تھے اور ابھی تک گویا وہ منتظر آنکھوں کے سامنے ہے اس کے بعد عمر کادوسرا ثلث ہے جس کی نسبت جی نہیں چاہتا کہ کچھ لکھوں صرف اس قدر اشارہ کافی سمجھتا ہوں کہ بتدریج اس ابتدائی حصہ کی خوبیاں جن کومیں نمونے کے طور پر لکھ رہا ہوں روبکمی ہوتی گئیں اور آخر حصہ میں وہ سب کی سب کافو رہو گئیں اور ان کی جگہ ناگفتہ بہ باتوں کامجموعہ اپنے اندر جمع ہو گیا اور صحبت اور مجلس بھی دیسی رہتی تھی۔ غرض جب تیسرے حصہ کا آغاز ہونے لگا شاید عمر بھی چالیس سے متجاوز ہو گئی توکچھ کچھ آنکھ کھلنے لگی گو کسی قدر حالات وہی دوسرے حصہ کے باقی اور قائم رہ گئے صرف اتنا فرق پیدا ہوا کہ اپنی حالت کو غور سے دیکھنے لگا اور اچھے اور بڑے میں تمیز ہونے لگی۔ والدین وغیرہ تو گویا سر پر سے اٹھ گئے تھے اب نوبت اپنے ہمنشینوں کی آئی جو کسی قدر معمر تھے وہ بھی باری باری اٹھنے لگے اور عبرت ناک حالات بھی پیش ہونے لگے کچھ تو اپنی نالائق زندگی کا غم اور تغیرات زمانہ کورنگ دل کو پکڑتا تھا مروت محبت اپنے بیگانے سے اٹھنے لگی دوست دشمن سے بدتر نظر آنے لگے۔ گھر کی بات بگڑنے لگی۔ ہم آٹھ بھائی تھے چھ حقیقی اور دو چچا زاد او رپھر سب باعیال و اطفال بلکہ بھتیجے تک صاحب خیال و اطفال۔ سب مل کرکوئی پچاس آدمی کا مجموعہ تھا مگرسب کے سب اچھی طرح گزارتے تھے کوئی کسی کا بار خاطر نہ تھا او رکسی کو کسی کے خرچ کرنا گران نہیں گزرتا تھا۔ چچازاد گویا حقیقی بھائیوں سے زیادہ عزیز تھے مگر اب اس میں بھی فرق آنے لگا اور ایک دوسرے درپے ہو گیا اتفاق کی صورت میں فرق آتا تھا گو چندے بات سنبھلی رہی او راس کی وجہ یہ تھی اس عاجز کا رعب سب گھروالوں پر تھا کسی کو کسی قسم کی سبقت کی جرات نہ ہو سکتی تھی۔ مگر چونکہ صورت اتفاق میں فرق آگیا اس لئے زندگی بے لطف سی ہو گئی او رپھر علیحدہ ہونے کی نوبت آپہنچی اور سب کے سب یکے بعد دیگرے الگ ہو گئے صرف ایک میرا بھائی زکریا میرے ساتھ رہا اور کارخانہ میں بھی ہمارے ہی سر پر پڑا کوئی دس برس کا عرصہ گزرتا ہے کہ میں قسم قسم کی ابتلائوں میں پڑا اور کوئی پہلو زمانہ ایسا نہ رہا جس سے مجھ کوسابقہ نہ پڑا ہو اور ہر ایک پہلو پر تغیرات کلی کا اثر محسوس ہونے لگا اور ساتھ اس کے میری زبان پر ا س کاشکوہ اور گلہ بھی رہا یہاں تک کہ میں نے اپنے بعض دوستوں کو بعض کامو ںسے روکا جو بظاہر اس وقت ان کے لئے مفید تھے مگر درحقیقت میری نظر میں جو اس حالت سے گزر کر خوفناک اور مضر