ہم او ردو بھائی چچا زاد ہیں جو بڑی عمر کے تھے اور معاملہ فہم تھے مگر ہم دونوں بھائی کم سن تھے اور نو آموز۔ غرض والد صاحب کے تشریف فرما ہونے کے بعد چھوٹا بھائی زکریا مدراس کواپنی خاص دوکان پر روانہ کیا گیا۔ چونکہ وہ میرے سے زیادہ معاملہ فہم او رطبیعت کا ہر طرح سے تیز تھا اس لئے میرے بڑے بھائی نے ان کودہان روانہ کر دیا او رمیرے دوسرے چچا زاد بھائی کو الگ دوکان پر بیٹھایا او راپنے تئیں مجھے بڑی دوکان کے لئے تجویز فرمایا اور بعد اس کے خود بھی جلد کسی کام کے پیش آنے سے مدراس روانہ ہوگئے اور میں اکیلا یہاں دوکان پر رہ گیا اور اس وقت تک میں گویا ایک آزادنہ زندگی بسر کرتا تھا اور اب پابند ہوگیا اس لئے اب کچھ کچھ بوجھ معاملہ کا او ر خانہ داری کا محسوس ہونے لگا چونکہ ابتداسے ہمارے چچا زاد کا کھانا پینا الگ ہی تھا۔ معاملہ شرکت کا تھا۔ غرض ہر ایک قسم کی آزمائش ہونے لگی اور بہت جلد طبیعت آیندہ کے لئے ہوشیا ر ہو چلی تجارت پیشہ میں بھی ایک شمار ہونے لگا او رکچھ عزت اور وقار ……نظر سے ابنائے جنس میں دیکھا جانے لگا اور بصداق تکیہ برجائے بزرگان ننواں زد بگراف۔ مگر اسباب بزرگی ہمہ آمادہ کنی۔ ہر ایک موقعہ اور محل کا فہم گویا خدا سے ہی لگ گیا او رکوئی ایک برس کے بعد مدراس جانے کی نوبت پیش آگئی والد مرحوم کابعد حج شاید دوسرے یا تیسرے دن مکہ معظمہ میں انتقال ہو گیا اور بڑا سخت صدمہ اس حادثہ دل کو پہنچا جس کو یہ عاجز اب تک نہیں بھولا۔ غرض اس حادثہ جانکاہ کے بعد میرا بھائی بنگلور آ گیا اور مجھے وہاں جانا پڑا بعد پہنچنے کے بعد میرے چچا زاد بڑے بھائی جو وہاں موجود تھے صرف دو یا تین دن رہے اور بنگلور کو روانہ ہو گئے ان کی اس حرکت سے سخت حیرانی ہوگئی یعنی ایک تو میں بالکل نیا او رپھر ہر ایک طرح سے نوآموز دفتر وغیرہ لکھنے کی بالکل تمیز نہ تھی او رکسی اہل معاملہ سے شناسائی کروائی او رنہ کچھ زبان سے کہا اور نہ کیا تو یہ کیا چلنے پر آمادہ ہو گئے اور یہاں مجھے گویا قیامت کا سامنا ہوگیا ہزاروں کالین دین او رکچھ بھی نذارو مگر کیا ہو سکتا تھا۔ بجز اس کے کہ کہر درویش کبھی تو گھبرا کر رو پڑتا تھا اور کبھی دفتروں کو پاس رکھ کر ساری ساری رات غور کیا کرتا تھا اس وقت ایک مدراسی مسلمان ہمارے کام میں تھے جن کو کام و کاج کا کچھ تجربہ تھا ان سے مجھے مدد ملتی رہی غرض یہ کہ ان باتوں پرمیں بہت جلدی حاوی ہو گیا او رپھر معاملہ کے متعلق بھی شوق ہو چلا۔ یا امام ہمام علیہ الصلوٰۃ والسلام میرا اس قدر طوالت کے ساتھ اس مضمون کو بیان کرنے سے مدعا یہ ہے کہ یہ گویا میری ابتدائی عمر کا ایک ثلث ہے جس کو آج میں یاد کرتا ہوں تو میرے آنسو نکل پڑتے ہیں وہ کیا ہی مبارک حصہ زندگی کا تھا جس میں ہر قسم کی خیروخوبی جمع تھی۔ تجارت ایک محدود دلیرہ کے اندر چلتی تھی۔ اکثر اسباب بمبئی سے آیا کرتا تھا بمبئی سے بنگلور شاید اڑھائی اور تین مہینے کے اندر اسباب پہنچتا تھا تو ایک دم ہی تیس چالیس گاڑیوں میں کئی تاجروں کامال آجاتا تھا گویا ایک قافلہ کی حثیت ہوتی تھی او راس اسباب کے آنے سے جو رونق بازار کی ہوتی تھی اس کانقشہ ابھی تک میرے آنکھوں کے سامنے ہے غرض بیس سے لے کر چالیس فیصدی کے قریب پر نفع موجود چھوٹے چھوٹے بیوپاری مال خرید لیتے تھے اور چار سے چھ قسط میں روپیہ ادا کرنے کی شرط ہوتی تھی اور اس طرح پر سال میں بیس ہزار کے قریب قریب ہماری تجارت چلتی تھی اور سال میں آٹھ مہینے راستہ کھلا رہتا تھا او رچار مہینے بند یعنی رسم کے مخالف ہونے کی وجہ سے جہاز رانی موقوف رہتی تھی۔ یہ گویا معاش کا ذریعہ او راس وقت کی تجارت کی حالت تھی اب رہا دوسرا پہلو یعنی خانہ داری کا ملاخطہ فرمائے کہ