بطور عیدی دے دیا کرتے ہیں تو اس ناچیز کے پا س ایسی تقریبوں کے جمع کئے ہوئے کوئی دس بارہ روپے تھے اور اس کو بڑی احتیاط سے اپنے پاس رکھتا تھا یعنی کسی کو اس چیز کی خبر نہ تھی۔ میں خاص اپنے صندوق میں رکھا کرتا تھا ۔ غرض ایک وقت مولوی صاحب مذکورہ حسب عادت تشریف لائے اور میں ان کو کھانا کھلانے کے واسطے مکان پر لے گیا چونکہ وہ کوئی وقت کھانے کا نہ تھا ہم میری والدہ نے چٹ پٹ تھوڑی روٹی اور سالن تیار کرلیا اور بہت جلد مولوی صاحب کے درپیش کیا معلوم ہوتا ہے اس وقت ان کواشتہا بھی زیادہ ……کھانا کھانے کے بعد۔ دعائے خیر معمول سے زیادہ ان سے صادر ہوئی اور ان کی حالت ظاہری سے کچھ ایسا بھی محسوس ہوتا تھا کہ ان کو کچھ او ربھی احتیاج ہے او رمیں نے وہ مبلغ جو اس عمرتک جمع کیا ہوا تھا تمام وکمال مولوی صاحب کے نذر کر دیا اور شاید آج تک اس کی کسی کو خبر نہیں ہے او رمجھے یہ واقعہ اب تک اچھی طرح یاد ہے۔ اس کے بعد مولوی صاحب بہت ہی محبت اور شفقت فرماتے رہے اور چونکہ صوفی منش بھی تھے کچھ کچھ ذکر اور اوراء مجھے سکھلانے لگے اور میں بھی ان کی ہدایت بموجب کرتا رہا۔ چنانچہ ان کی لکھوائی ہوئی ادعیہ میں سے ایک ابھی تک میرا دستور العمل ہے لیکن بعد اس کے بہت جلد شادی ہوئی۔ میری عمر کا شاید چودہواں سال ہو گا۔ جومیری یہ تقریب ہوئی او رمیری حالت اس وقت تک یہ تھی کہ میں اس کی غرض وغیرہ سے بالکل نا آشنا تھا۔ یعنی کچھ بھی خبر نہ تھی کہ شادی سے کیا غرض ہوتی ہے۔ غرض بعد شادی کے مجھے زیادہ انس مسجد اور اچھے لوگوںکی صحبت سے رہی۔ اگرچہ ایک حد تک دوکانداری بعد شادی کے ضروری امر ہوگیا مگر میں اس کے واسطے کچھ نہیں کرتا تھا میری بیوی اس وقت کبھی میرے پاس رہتی تھی کبھی میکے میں گزارتی تھی اکثر عادت ایسی تھی کہ ایک ہفتہ یہاں اور ایک ہفتہ وہاں ان کاگزرتا تھا۔ مگر میری یہ حالت رہتی تھی کہ جب وہ میکے میں ہوتی تھیں تو میں بڑا خوش رہتا تھا۔ چونکہ کمرہ خالی ہوتا اور میں مصلے پر ہی صبح کرتا تھا اس لئے میں اس تنہائی میں ایک خاص لطف محسوس ہوتا تھا میرے سسرا ل کو چند روز کے لئے سفر درپیش آیا اور انہوں نے میری بی بی کو ساتھ لے جانا چاہا اور میرے والدین سے اس امر کی درخواست کی او ران کو یہ بات ناپسند تھی۔ مگر میری یہ خواہش تھی کہ اگر یہ اجازت دے دیں تو مجھے ایک عرصہ تک تنہائی میسر رہے گی۔ غرض ایسا ہی ہوا اور مجھے تنہائی میسر ہو گئی اور میں اس تنہائی میں اپنے شغل میں لگا رہتا اور کچھ کچھ باطنی صفائی بھی مجھے محسوس ہوتی تھی او ر اچھے اچھے خواب بھی آتے تھے۔ دیوان حافظ وغیرہ ایسی کتابوں کے ساتھ مجھے خاص رغبت رہتی تھی اور میں وہ دن بڑی خوشی اور ذوق کے ساتھ گزارتا تھا۔ غرض جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں یعنی دو تین سال میرے اسی طرح گزرے اور اس کے بعد میرے چھوٹے بھائی ذکر مرحوم کی شادی ٹھہری او رمیرے والدین اس سے محبت کیا کرتے تھے اور اس کو بہت چاہتے تھے کیونکہ جیسے وہ کمال درجہ کے شکیل تھے ویسے ہی ذکی الطبع بھی تھے پس ان کی شادی اس وقت کے رسم ورواج کے موافق بڑی دھوم دھام سے ہوئی جب اس شادی سے فراغت پا چکے تو انہوں نے حج بیت اللہ کا ارادہ فرمایا او راسی اثنا میں ہماری دوکان مدراس میں الگ ہو گئی جو اس سے پیشتر چند شرکائو نمیں چلتی تھی۔ اب سب شرکاء نے اپنی اپنی جدا جدا دوکانیں کھول کر ایک مشترکہ دوکان کو بند کر دیا اس مشترکہ دوکان میں چار شریک تھے جن کی اب وہ چار دوکانیں ہوگئیں والد مرحوم نے مجھے کواور ذکر مرحوم کو یہا ںچھوڑا اور باقی سب کو ہمراہ لے کر بیت اللہ شریف کو راہی ہو گئے اور یہاں دو بھائی