ضمیمہ آب بیتی حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب رضی اللہ عنہ کے نام کے مکتوبات کے بعد میں اس مضمون کودرج کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو سیٹھ صاحب نے حضرت حجتہ اللہ علی الارض مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد عالی کے ماتحت لکھا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں اسے الحکم میں چھاپ دوں چنانچہ وہ الحکم میں چھپ گیا تھا۔ حضرت سیٹھ صاحب کی اس یادگار کے ساتھ اس کا اندراج بہت ضروری ہے۔ حضور اقد س امام ہمام علیہ السلام ! اس خبر ……کی ابتدائی عمر میں سے قسم قسم کے لوگوں سے ملاقات رہی ہے۔ مگر جس گروہ کے ساتھ ملاقات ہوئی ابتدا تو ایک دلی جوش سے ہوا کرتی تھی اور اس ناچیز کو بڑی محبت اس سے رہا کرتی۔ لیکن جب کبھی کسی قسم کی کوئی منافقانہ حرکت ایسے ملاقاتی سے مشاہدہ میں آتی تو میرا دل رنج و غم سے بھر جاتا اور سخت صدمہ پہنچتا میری صحبت اور ملاقات زیادہ تر او رحصوصیت کے ساتھ علماء اور صلحاء سے رہتی اور بجائے خود تقویٰ اورطہارت کوبھی فی الجملہ پسند کرتا تھا۔ چنانچہ میری ابتدائی عمر کی ایک کفیت یہ ہے کہ ایک بزرگ وہ خراسانی تھے۔ بنگلور کے قریب ایک مقام میں جس کو لا کر کسی نے سکونت رکھتے تھے اور ان کا نام دو دومیان تھا چونکہ خراسانی گھوڑوں کے سوداگر وہاں قیام کرتے تھے۔ ایک سرکاری کے گھوڑوں کی خریداری بھی وہاں ہو اکرتی تھی…… اس لئے ان کاقیام اس جگہ رہتا تھا ا ور کبھی کبھی بنگلور بھی آجایا کرتے تھے۔ ایک نوجوان خوش رد اور تقویٰ او رپرہیز گاری میں کامل تھے اور اس وقت ان کاسن بھی کوئی پچاس کے قریب ہو گا مگر قرآت بہت اچھی پڑھتے تھے او ربڑے ہی خوش الحان تھے۔ جب کبھی ان کاآنا بنگلور میں ہوتا تھا تو جامع مسجد میںآکر فرد کش ہوا کرتے تھے او راس ناچیز کے وقت کا ایک حصہ مسجد میں گزرتا تھا ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ مولوی صاحب دو دومیان صاحب نے نماز عشاء پڑھائی یہ گویا ان کی قرآت او رخوش الحافی پر مطلع ہونے کا پہلا اتفاق ہوا جوں جوں نماز پڑھتا تھا اور ساتھ ساتھ طبیعت کوان کی طرف میلان ہوتا اور پھرتو میرے وقت کا کچھ کچھ حصہ ان کی محبت میں گزرتا رہا چونکہ وہ بزرگ نہایت درجہ کے متقی پارسا اور تہجد گزار او رمنکرالمزاج تھے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے میں ایک لذت بھی محسوس ہوتی تھی باین سبب ان پر میراحسن ظن بڑھتا گیا او راکثر وہ ہمارے ہاں بھی مہمان ہوتے جب تک ان کاقیام ہوتا۔ چونکہ اس ناچیز کے والدین خدا ان کو مغفرت عطا کرے ا س بات کو نہایت عزیز رکھتے تھے تو میرے لئے یہ بات بہت آسان ہوجاتی کہ جب کوئی عالم یاکوئی اعلیٰ درجہ کے آدمی وہاں آجاتے تو ہرگز ہمارے مہمان ہوئے بغیر رخصت نہ ہوتے تھے او ریہ اس زمانہ کا ذکر ہے کہ اس ناچیز کو کاروبار دنیا سے کچھ معلوم نہ تھا مسجد او رمدرسہ اور کبھی کبھی اپنے ہم عمر لڑکوں کے ساتھ کھیل تماشہ سیر کرنے میں بھی گزرتا تھا غرض جیسا کہ والدیں کی عادت ہوا کرتی تھی بڑے دنوں یعنی مشہو رتہواروں میں لڑکوں کو کچھ دے دیا کرتے ہیں جیسا کہ عیدین کو وغیرہ کو او رایسا ہی بعض دوسرے رشتہ دار بھی ایسے موقعوں پر کچھ نہ کچھ نقدی