او رگناہ کو درمیان نہ ہو تو کچھ مضائقہ نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فی الصلح خیر ورنہ اس وقت تک صبر کرنا چاہئے جب تک خد اتعالیٰ خود آسمان سے کوئی صورت بہبودی پید ا کردے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے انسان اپنی کمزوری اور بے صبری سے آنے والی رحمت سے منہ پھیر لیتا ہے ورنہ خد اتعالیٰ کے وعدے سچے ہوتے ہیں۔ وہ ضرور وقت پر اپنی تمام باتیں پوری کر دیتا ہے قادر ہے او رکریم ہے صبر سے ایک حدتک تلخی اٹھانا موجب برکات ہے۔ مگر یہ کام بڑے خوش قسمت انسان نو کا ہے جن کوخد اتعالیٰ پر بہت بھروسہ ہے جو کبھی تھکتے نہیں آخر کار خداتعالیٰ ان کی مدد کرتا ہے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں ایک جگہ فرماتا ہے وظنو اانہم کذبو یعنی ہم نے نبیوں کو وعدہ مدد اور فتح کا دیا پھر مدت تک اس وعدہ کو التوا میں ڈال دیا یہاں کہ مومنوں نے خیال کیا کہ خد انے جھوٹ بولا اور جھوٹا وعدہ دیا او راس کے کچھ آثار بھی ظاہر نہ ہوئے مگر آخر وقت پر وہ وعدہ پور اہو ااس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کس قدر یہ خوف کامقام ہے کہ کچی طبیعت والوں پر یہ حالت بھی آجاتی ہے کہ وہ تھک کر خد اکے وعدے بدظنی سے دیکھنے لگتے ہیں اور جھوٹ خیال کرتے ہیں نہایت خوش قسمت وہ شخص ہیں جن میں تھکنے کا مادہ نہیں گویا ان پیغمبروں کی روح ہے حضرت یعقوب علیہ السلام کو قسم دیگر گواہوں کے ساتھ یہ یقین دلایا گیا تھا کہ یوسف کو بھیڑیا کھا گیا مگر خد اکے وعدہ میں وہ شک نہ لائے او رچوبیس برس کے قریب مدت گزر گئی خد اکے وعدہ نے کچھ بھی ظہور نہ کیا یہاں تک کہ گھر کے لوگ بھی یعقوب کو دیوانہ کہنے لگے آخر خد اکاوعدہ سچا نکلا۔ غرض سب کچھ انسان کر سکتا ہے لیکن صادق مومنوں کی طرح صبر کرنا مشکل ہے خاص کر بے ایمانی ہو جو ہر طرف سے چل رہی ہے جس نے کی طرف کو بے عزت کر دیا ہے وہ اکثر دلوں پر زہریلہ اثر دکھاتی ہے آخر کمزور انسان تھک کر ان میں سے ایک ہو جاتا ہے اور خد اسے ……جدا ہو جاتا ہے لیکن مومن کے لئے عہد شکنی سے مرنا بہتر ہے مومن کا خدا کے ساتھ ایمانی عہد ہوتا ہے اور جب خدا تعالیٰ کا بھروسہ چھوڑ دیا تو وہ عہد قائم نہیں رہتا پس صبر جیسی کوئی چیز نہیں جس کی برکت سے بگڑے ہوئے کام درست ہو جاتے ہیں او رخد اتعالیٰ راضی ہو جاتا ہے سو خدا تعالیٰ آپ کو ایسی توفیق دے کہ ان ہدایتوں پر آپ پابند رہیں۔ میرے نزدیک مناسب ہے کہ قادیان آنے کا اس وقت آپ ارادہ کریں جب کہ مدراس میں کچھ اطمینان اور تسلی کی صورت نکل آئے میں آپ کے لئے دعا میںسر گرمی سے مشغول ہوں صرف اس وقت کی دیر ہے جو آسمان پر مقرر ہے بے صبری سے اس پودے کو ضائع نہ کریں خدا مہربان ہو تو آخر ہر ایک مہربان ہو جایا کرتا ہے ورنہ دنیا داروں کی مہربانی بھی ایک مکرہوتا ہے۔ والسلام خاکسار مرزا غلام احمد ۶؍ جولائی ۱۹۰۵ء