پڑی پھر ایک بلی نے چاہا کہ ا س چڑیا کے گوشت میں کچھ حصہ لے اس نے چڑیا کو کھانے کے لئے اپنی طرف کھنچا شاید اس غرض سے کم سے کم نصف پہلی بلی کے منہ میں رہے او رنصف آپ کھائے لیکن کسی سبب سے وہ چڑیا دونوں کے منہ سے نکل کر زمین پر جاپڑی او رگرتے ہی پھر َ کر کے اڑ گئی چاروں بلیاں پیچھے دوڑیں مگر پھر کیا ہو سکتا تھا وہ کسی درخت پر جا بیٹھی اور بلیاں غائب و غا مسر واپس آئیں اس واقعہ کو دیکھ کر میرے دل کو بہت جوش آیا ا س طرح خد اتعالیٰ دشمنوں کے ہاتھ سے چھوڑاتا ہے۔ تب میںنے یہ خیال کیا کہ یہ وقت بہت مقبول ہے آپ کے لئے بہت دیر تک دعا کی کہ اے خدائے قادر جس طرح تونے اس عاجز چڑیا کو چار دشمنوں سے چھوڑایا اسی طرح اپنے عاجز بندہ عبدالرحمن کی جان بھی چھوڑ آمین۔ امید رکھتا ہوں کہ وہ یہ دعا بھی خالی نہیں جائے گی۔ والسلام خاکسار مرزا غلام احمد ۳۰؍ جون ۱۹۰۲ء مکتوب نمبر ۸۴ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا یہ سچ ہے کہ بناہو ا کام بگڑنے سے اور وسائل معاش کے گم یا معدوم ہونے کی حالت میںبے شک انسان کو صدمہ پہنچتا ہے مگر وہ جو بگاڑتا ہے او روہی بنانے پر قادر ہے پس دنیا میں شکسہ دلوں کی او رتباہ شدہ لوگوں کے خوش ہونے کے لئے ایک ہی ذریعہ ہے کہ اس خدائے ذوالجلال کو ایمانی یقین کے ساتھ یاد کریں کہ جیسا کہ وہ ایک دم میں تخت پر سے خاک مذلت میں ڈالتا ہے ایسا ہی وہ خاک پر سے ایک لحظہ میں پھر تخت پر بیٹھاتا ہے اس جگہ یہ کہنا کفر ہے کہ کیونکہ او رکس طرح او رایسے اوہام کا جواب یہی ہے کہ جس طرح ایک قطرہ نطفہ سے انسان کو پید اکیا۔ الم القلم ان اللہ علی شئی قدیر۔ نابینائی او ربد ظنی کی وجہ سے تمام دکھ پید اہوتے ہیں ورنہ وہ ہمارا خدا عجیب قادر بادشاہ ہے جو چاہے کرے کوئی بات نہیں اس کے آگے انہونی نہیں اگر یقین کی لذت پیدا ہوجائے تو شاید انسان دنیا میں طلبی کے ارادوں کو خود ترک کردے کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئی لذت نہیں کہ اس بات کو آزما لیا جائے کہ درحقیقت خد ا موجود ہے او ردرحقیقت وہ قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے اور وہ کریم اور رحیم ہے ان لوگوںکو ضائع نہیں کرتا جو اس کے آستانہ پر گرتے ہیں۔ والسلام خاکسار مرزا غلام احمد ۷؍جولائی ۱۹۰۲ء مکتوب نمبر ۸۵ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ عنایت نامہ پہنچا الحمدللہ کہ آثار بہبودی ظاہر ہونے لگے سلسلہ دعا کا برابر جاری ہے۔ سیٹھ دال جی صاحب نے جو مشک بھیجی ہے۔ خدا ان کو جزائے خیر دے اصل بات یہ ہے کہ عمدہ مشک ملتی نہیں۔ کبھی کبھی ہاتھ آتی ہے سو یہ مشک بھی درمیانی درجہ کی ہے بہرحال خدا تعالیٰ اس خدمت کانیک پاداش ان کو عطا کرے آمین۔ میں آپ کی طرف خط نہیں لکھ سکا کہ معلوم ہوا کہ وہ مدراس میں نہیں ہیں آپ میری طرف سے السلام علیکم کہہ دیں۔ والسلام خاکسار مرزا غلام احمد ۲۸؍ ستمبر ۱۹۰۲ء