نہیں۔ ہاں میرے خدائے کریم وقدیر کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنے اندر ارادوں کو جو دعائوں کے قبولیت کے بعد ظاہر کرنا چاہتا ہے اکثر دیر اور آہستگی سے طاہر کرتا ہے تا جو بدبخت اور شتاب کار ہیں وہ بھاگ جائیں او را س خاص طور کے فضل کا انہیں حصہ نہیں ملے گا جو خد اتعالیٰ عزوجل کے دفتر میں سعید لکھے گئے ہیں آپ کو کہتا ہوں کہ صبر سے انتظار کریں ایسا نہ ہو کہ آپ تھک جائیں اور وہ جو آپ کے لئے تخم بویا گیا ہے وہ سب برباد ہو جائے گا دنیا جلد تر آسمانی سلسلہ سے منہ پھیر لیتی ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتی کہ ایک خد اہے جوایک خا ک کی مٹی کو سرسبز کر سکتا ہے۔ اگر خدائے عزوجل کا آپ کے حق میں کوئی نیک ارادہ نہ ہو تو مجھے آپ کے لئے اس قدر جوش نہ بخشتا یہ مت خیا ل کرو کہ بربادی درپیش ہے یابکلی ہو چکی ہے بلکہ اس خدا پر ایمان لائو جو ایک مردہ نطفہ سے انسان کو پیدا کردیتا ہے او ریہ باتیں محض قیاسی نہیں بلکہ ہم اس خد اکی قدرتوں اور معجزوں کے نمونے دیکھ چکے ہیں جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے او رانسان میں خامی او ربیدلی صرف اس وقت تک رہتی ہے جب تک اس قادر کا کوئی نمونہ نہیں دیکھا ہے لیکن نمونہ دیکھنے کے بعد وہ قادر خدا اس شے سے زیادہ پیارا ہو جاتا ہے جس کو طلب کیا تھا۔ اس وقت یہ خدا کو تمام چیزوں پر مقدم رکھ لیتا ہے او رپھر بھروسہ بھر دوسرے چیز کے ہونے نہ ہونے کا کبھی غم نہیں کرتا۔ کیونکہ اب وہ اپنے خد اکو ایک ہی خزانہ جانتا ہے جن میں تمام جوہرات ہیں اس کے موافق مثنوی رومی میں ایک حکایت لکھی ہے کہ ایک عاشق تھا جو اپنے عشق میں نہایت بیتاب تھا آخر ایک باخدا آیا او راس کومراد تک پہنچایا اور خدا کی طرف آنکھیں کھول دیں تب وہ اپنے جھوٹے معشوق سے برگشتہ ہو گیا او راس مرد خد اکا دامن پکڑ لیا او رکہا گفت معشوقم تو بودستی نہ آن۔ لیک کاراز کارخیز دور جہان سو خلاصہ تمام نصیحتوں کایہی ہے کہ آپ وہ قوت ایمانی دکھلاویں کہ اگر اس قدر انقلاب او رانصاب مصائب ہو کر سر رکھنے کی جگہ باقی نہ رہے تب بھی افسردہ نہ ہوں۔زکار بستہ منیدیش و دل شکستہ مدار۔ کہ آپ چشمہ حیوان اور دن تاریکست۔ والسلام خاکسار مرزا غلام احمد ۲۲؍ مئی ۱۹۰۲ء مکتوب نمبر ۸۳ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس جگہ سب خیریت ہے دعا کا سلسلہ اس طرح جاری ہے او رخدا تعالیٰ کے فضل پر امیدیں ہیں چوانوراہ حکمت بہ بندے دورے۔ کشاید بفضل و کرم دیگرے۔ کل کا نظارہ دیکھ کر میں خوش ہوا۔ میرے مکانوں میں چار بلیاں رہتی ہیں ایک والدہ ہے اور تین اس کی بیٹیاں ہیں وہ بھی جوان او رمضبوط ہیں کل کے دوپہر کے وقت میں میں اکیلا ادھرکے دالان میں بیٹھا تھا کہ میرے دروازہ کے آگے ایک چڑیا آکر بیٹھ گئی فی الفور بڑی بلی نے حملہ کیا او را س چڑیا کا سر منہ میں پکڑ لیاپھر دوسر ی بلی آئی اس نے وہ چڑیا پہلی سے لے کر اپنے قبضے میں کر لی اور اس کاسر منہ میں لے لیا اور زمین پر ایسا رگڑا کہ میں وہ حالت مارے رحم کے دیکھ نہ سکا اور دوسری طرف میںنے منہ کرلیا ا ور پھر جو میں نے دیکھا تو تیسری بلی نے ا س چڑیا کا سر اپنے منہ میں لیا اور اس وقت مجھے خیال آیا کہ غالباً سر کھایا گیا اتنے میںچوتھی بلی نے اس چڑیا کو لیا اور زمین اسے رگڑا تب میںنے یقین کیا کہ چڑیا مر چکی او رسر کھا لیا گیا اور رگڑ دن میں کئی دفعہ چڑیا زمین پر