رحمت ہے کہ آپ نے میری اس نصیحت میں غفلت نہیں کی کہ خط برابر بھیجا جائے او رمیں جس قدر خد اتعالیٰ کی عجیب او رخارق عادت فضلوں پر یقین رکھتا ہوں کاش کوئی ایسا طریق ہو کہ میں آپ ک د ل میں بھی ڈال سکتا خد اتعالیٰ کے فضل اور رحمت او رقدرت کا تجربہ اگر ہو تو وہ اس حالت میں بھی انسان کوناامید نہیں کر سکتا کہ جب انسان پابزبخیر زندان میں دیکھتا ہوں کہ دنیا کے ا ور اس بات سے سب امیدیں ہماری ٹوٹ چکی ہیں لیکن جب تک ہم قبر میں داخل ہو جائیں یہ امید ہماری ٹوٹنے کے قابل نہیں ہے کہ ہمارا خد اوہ خد اہے جو ہر ایک بات پر قادر ہے انسان کی طبیعت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ دو چار تجربہ سے خواص اشیاء پر یقین کر لیتا ہے مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ پانی ہمیشہ پیاس کو بجھاتا ہے اور روٹی ایک بھوکے انسان کوسیر کرتی ہے کسڑایل دست لاتا ہے سم الفاء پوری خوراک پر ہلاک کرتا ہے تو پھر خد اتعالیٰ کے فضل اور رحم پر کیوں یقین نہ کریں جس کو ہم اپنی زندگی میں صدہا مرتبہ آزما چکے ہیں سچ تو یہ ہے کہ گھبراہٹ ضعف ایمان کے باعث ہوتی ہے اگر کسی کو یہ یقین ہوکہ میرا خدا ہے جو مجھے ہر گز ضائع نہیں کرے گا تو ممکن ہے کہ نہیں کہ وہ غمگین ہو او روہ کیونکر غمگین ہو سکے انسان تو ………سے بھی تسلی پاکر بھی غمگین نہیں ہوتا مثلاً اگر کسی کو لاکھ دو لاکھ کی ضرورت پیش آجائے او راس کے ایک پاس پیسہ نہیں او روہ فکر ادائیگی میں مر رہا ہے اور کوئی رفیق نہیں تو غم سے ہلاک ہو جائے گا جس طرح سیداحمد خان آخر ایک لاکھ روپیہ کے غم سے دنیا سے کوچ کرگئے لیکن اگر ایسے مضطرب آدمی کو کوئی دوست مل جائے جو ذات کاچورا یعنی بھنگی ہے یا چمار ہے اور وہ بہت دولت مند ہو اور وہ اس کو تسلی د ے کہ غم نہ کر کچھ دیرکے بعد یہ تمام روپیہ تیرا میں ادا کردوںگا او راس کو یقین آجائے کہ اب بلاشبہ اپنے وعدہ پر یہ شخص تمام روپیہ ادا کردے گا تو قبل پہنچے روپیہ کے جس قدر اس کو کشایش ہو رہی ہے وہ اس کی نظر میں ایک معمولی ہو جائے گا اور چہرہ پر افسردگی نہیں رہے گی ایسا ہی وہ شخص جو یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے ضائع نہیں کرے گا وہ بلاشبہ ضائع نہیںہو گا۔ غم تب آتا ہے جب انسان جاتا ہے ایک تو بشریت کاغم ہے اس میں تو انسان ایک حد تک معذور ہوتا ہے جیسا کہ کسی کی موت پر غم آتا ہے اس میں تو انبیاء بھی شریک ہوتے ہیں جیسا کہ حضرت یعقوب یوسف کی جدائی میں چالیس برس تک روتے رہے وہ بشریت کا غم تھا مگر ایک ضعف ایمان کا غم ہوتا ہے۔ جیسا کہ کوئی نادان یہ غم کرے کہ میر اکیا حال ہو گا کیونکہ مجھے روٹی او رکپڑا ملے گا عیال کا کیا حال ہو گا اس غم سے اگر انسان توبہ نہ کرے تو کافر ہو جاتا ہے کیونکہ اپنے رازو کا منکر ہے دعا کا سلسلہ خوب سرگرمی سے جاری ہے ہر ایک ساعت خد اتعالیٰ کے فضل کی امید ہے۔ والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ۱۷؍ جولائی ۱۹۰۲ء مکتوب نمبر ۸۲ مخدومی مکرمی اخویم سیٹھ صاحب سلمہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ عنایت نامہ پہنچا موجودہ حالات سے آپ دلگیر نہ ہوں اور نہ کسی گھبراہٹ کو اپنے دل تک آنے دیں میں اپنی دعائوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ ہر گز خطا نہیں جائیں گی۔اگر ایک پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائے تو میں اس کو ممکن مانتا ہوں مگر وہ دعائیں جو آپ کے لئے کی گئی ہیں وہ ٹلنے والی