اگر آپ ناراض نہ ہوں تو اس عاجز کی دانست میں اخویم مولوی حکیم نورالدین صاحب کے مقابل آپ کی تحریر میں کسی قدر سختی تھی۔ خدا تعالیٰ انکسار اور تذلل کو پسند کرتا ہے اور علماء کے اخلاق اپنے بھائیوں کے ساتھ سب سے اعلیٰ درجے کے چاہئیں۔ جس دین کی حمایت اور ہمدردی کے لئے دن رات کوششیں ہو رہی ہیں وہ کیا ہے؟ صرف یہی کہ اللہ اور رسول کی منشاء کے موافق ہمارے جمیع احوال و افعال و حرکات سکنات ہو جائیں۔ میرے خیال میں اخلاق کے تمام حصوں میں سے جس قدر خدا تعالیٰ تواضع اور فروتنی اور انکسار اور ہر ایک ایسے تذلل کو جو منافی نخوت ہے پسند کرتا ہے ایسا کوئی شعبہ خلق کا اس کو پسند نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ ایک سخت بے دین ہندو سے اس عاجز کی گفتگو ہوئی اور اس نے حد سے زیادہ تحقیر دین متین کے الفاظ استعمال کئے۔ غیرت دینی کی وجہ سے کسی قدر اس عاجز نے ۱؎ پر عمل کیا مگر چونکہ وہ ایک شخض کو نشانہ بنا کر درشتی کی گئی تھی اس لئے الہام ہوا کہ تیرے بیان میں سختی بہت ہے رفق چاہئے رفق۔ اور اگر ہم انصاف سے دیکھیں تو ہم کیا چیز اور ہمارا علم کیا چیز۔ اگر سمندر میں ایک چڑیا منقار مارے تو اس سے کیا کم کرے گی۔ ہمارے لئے یہی بہتر ہے کہ جیسے ہم درحقیقت خاکسار ہیں۔ خاک ہی بنے رہیں۔ جب کہ ہمارا مولیٰ ہم سے تکبر اور نخوت پسند نہیں کرتا تو کیوں کریں۔ ہمارے لئے ایسی عزت سے بے عزتی اچھی ہے جس سے ہم مورد عتاب ہو جائیں۔ آپ کی تحریر اگر اس طرح پر ہوتی کہ جس قدر خداوند تعالیٰ نے میرے پر کھولا ہے۔ اگر آپ مہربانی فرما کر ملیں یا میں ملوں۔ تو بیان کرونگا تو کیا اچھا ہوتا۔ یہ قاعدہ ہے کہ جس حالت اندرونی سے انسان کے منہ سے الفاظ نکلتے ہیں وہی رنگ الفاظ میں بھی آ جاتا ہے۔ میں نے اس فیصلہ میں مولوی نورالدین صاحب کا کچھ لحاظ نہیں کیا اور محض للہ آنمکرم کی خدمت میں عرض کی گئی ہے۔ اس عاجز کو پختہ طور پر معلوم نہیں کہ کس تاریخ اس جگہ سے یہ عاجز روانہ ہو۔ بعض موانع پیش آگئے ہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ شاید ایک ہفتہ کے اندر اندر وانہ ہو جاؤں اس صورت میں بالفعل ملاقات مشکل معلوم ہوتی ہے لہٰذا اطلاعاً آپ کی خدمت میں لکھتا ہوں کہ اس عاجز کیلئے بٹالہ میں تشریف نہ لاویں کیونکہ کوئی پختہ معلوم نہیں جس وقت خدا تعالیٰ چاہے گا ملاقات ہو جائے گی۔ والسلام ( خاکسار غلام احمد از قادیان ۱۳؍فروری ۱۸۹۱ء)