محبت نامہ پہنچا چونکہ آنمکرم عزم پختہ کر چکے ہیں تو پھر میں کیا عرض کر سکتا ہوں۔ اس عاجز کی طبیعت بیمار ہے۔ دوران سر اور ضعف بہت ہے۔ ایسی طاقت نہیں کہ کثرت سے بات کروں جس حالت میں آنمکرم کسی طور سے اپنے ارادہ سے باز نہیں رہ سکتے اور ایسا ہی یہ عاجز اس بصیرت اور علم سے اپنے تئیں نابینا نہیں کر سکتا جوحضرت احدیت جل شانہٗ نے بخشا ہے۔ اس صورت میں گفتگو عبث ہے۔ رسالہ ابھی کسی قدر باقی ہے ناقص کو میں بھیج نہیں سکتا۔ اس جگہ آنے کیلئے آنمکرم کو یہ عاجز تکلیف دینا نہیں چاہتا۔ مگر ۲۶؍ فروری ۱۸۹۱ء کو یہ عاجز انشاء اللہ القدیر لودیانہ کے ارادہ سے بٹالہ میں پہنچے گا۔ وہاں صرف آپ کی ملاقات کرنے کا شوق ہے گفتگو کی ضرورت نہیں اور یہ عاجز للہ آپ کے ان الفاظ کے استعمال سے جو مخالفانہ تحریر کی حالت میں کبھی حد سے بڑھ جاتے ہیں یا اپنے بھائی کی تذلیل اور بدگمانی تک نوبت پہنچاتے ہیں معاف کرتاہے۔ واللّٰہ علی ماقلت شہید
چند روز کا ذکر ہے کہ پرانے کاغذات کو دیکھتے دیکھتے ایک پرچہ نکل آیا جو میں نے اپنے ہاتھ سے بطور یادداشت کے لکھا تھا اُس میں تحریر تھا کہ یہ پرچہ ۵؍ جنوری ۱۸۸۸ء کو لکھا گیا ہے مضمون یہ تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ مولوی محمدحسین صاحب نے کسی امر میں مخالفت کر کے کوئی تحریر چھپوائی ہے اور اُس کی سرخی میری نسبت ’’تحمیذ‘‘ رکھی ہے۔معلوم نہیں اس کے کیا معنے ہیں اور وہ تحریر پڑھ کرکہا ہے کہ آپ کو میں نے منع کیا تھا پھر آپ نے کیوں ایسا مضمون چھپوایا۔ ھذا مارایت واللّٰہ اعلم بتاویلہ
چونکہ حتی الوسع خواب کی تصدیق کیلئے کوشش مسنون ہے اس لئے میں آنمکرم کو منع کرتا ہوں کہ آپ اس ارادہ سے دست کش رہیں۔ خدائے تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں اپنے دعویٰ میں صادق ہوں اور اگر صادق نہیں تو پھر ۱؎کی تہدید پیش آنے والی ہے۔ لاتقف ما لیس
۱؎ المومن: ۲۹
لک بہٖ علم ولا تدخل نفسک فیما لا تعلم حقیقۃ یا اخی وافوض امری الی اللّٰہ یوتک اجر صبرک یا اخی وانا انظر الی السماء وارجوتائید اللّٰہ واعلم من اللّٰہ مالاتعلمون۔
والسلام