و اطاعت سے غرض ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اس خلاف میں آپ کی نیت بخیر ہوگی۔ لیکن میرے نزدیک بہتر ہے کہ آپ اوّل مجھ سے بات چیت کر کے اور میری کتابوں کو یعنی رسالہ ثلثہ کو دیکھ کر کچھ تحریر کریں۔ مجھے اِس سے کچھ غم اور رنج نہیں کہ آپ جیسے دوست مخالفت پر آمادہ ہوں۔ کیونکہ یہ مخالفت رائے بھی حق کے لئے ہوگی۔ کل میں نے اپنے بازو پر یہ لفظ اپنے تئیں لکھتے ہوئے دیکھا کہ میں اکیلا ہوں اور خدا میرے ساتھ ہے اور اُس کے ساتھ مجھے الہام ہوا۔ ان معی ربّ سیھدین۔ سو میں جانتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ اپنی طرف سے کوئی حجت ظاہر کر دے گا۔ میں آپ کے لئے دعا کروں گا۔ مگر ضرور ہے کہ جو آپ کے لئے مقدر ہے وہ سب آپ کے ہاتھ سے پورا ہو جائے۔ حضرت موسیٰ کی جو آپ نے مثل لکھی ہے اشارۃ النص پایا جاتا ہے کہ ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ جیسا کہ موسیٰ نے کیا۔ اس قصے کو قرآن شریف میں بیان کرنے سے غرض بھی یہی ہے کہ تا آئندہ حق کے طالب معارف روحانیہ اور عجائبات مخفیہ کے کھلنے کے شائق ہیں۔ حضرت موسیٰ کی طرح جلدی نہ کریں حدیث صحیح بھی اسی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
اب مجھے آپ کی ملاقات کے لئے صحت حاصل ہے اگر آپ بٹالے میں آ جائیں تو اگرچہ میں بیمار ہوں اور دوران سر اس قدر ہے کہ نماز کھڑے ہو کر نہیں پڑھی جاتی تا ہم افتاں و خیزاں آپ کے پاس پہنچ سکتا ہوں۔ بقول رنگین
وہ نہ آئے تو تو ہی چل رنگین اس میں کیا تیری شان جاتی ہے
ازالۃ الاوہام ابھی چھپ کر نہیں آیا۔ فتح اسلام اور توضیح المرام ارسال خدمت ہیں۔
(الراقم غلام احمد از قادیان)
جواب نمبر۳
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
مخدومی مکرمی اخویم مولوی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ :السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ