کہ کس کس آیت کو آپ حضرت مسیح ابن مریم کے زندہ ہونے کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں اور اگر بغیر کسی جرع قدح کے وہ ثبوت آپ کا مسلم ٹھہرے گا تو بھلا پھر کس کی مجال ہے کہ اس سے انکار کر جائے لیکن اگر قرآن شریف سے آپ ثابت کریں گے تو پھر آپ کو اختیار ہوگا کہ بعد تحریری اقرار اس بات کے کہ قرآنی ثبوت پیش کرنے سے ہم عاجز ہیں اور احادیث صحیحہ غیر متعارضہ کو اس ثبوت کیلئے آپ پیش کریں اور جب آپ ایسا ثبوت دے چکیں گے تو منصفین ترازو سے انصاف لے کر خود جانچ لیں گے کہ کس طرف پلہ ثبوت بھاری ہے۔ والسلام علی من التبع الھدی راقم میرزا غلام احمد ۹؍ مئی ۱۸۹۱ء ٭…٭…٭ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ مخدومی مکرمی اخویم حضرت مولوی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اس عاجز کی گزارش یہ ہے کہ اب فتنہ مخالفت ہر جگہ بڑھتا جاتا ہے اور مولوی محمدحسین صاحب جس جگہ پہنچتے ہیں یہی وعظ شروع کی ہے کہ یہ شخص ملحد اور دین سے خارج اور کذاب اور دجال ہے میں نے اوّل نرمی سے یہ عرض کیا تھا کہ میرا مسیح ہونے کا دعویٰ مبنی بر الہام ہے اور جو امور محض الہام پر مبنی ہوں وہ زیر بحث نہیں آ سکتے بلکہ خدا تعالیٰ رفتہ رفتہ ان کی سچائی آپ ظاہر کرتا ہے ہاں مسیح کی وفات یا حیات کا مسئلہ گو میرے الہام کا اصل الاصول ہے مگر بباعث ایک شرعی امر ہونے کے زیر بحث آ سکتا ہے اور اگر مسیح کی زندگی ثابت ہو جائے۔ تو میرا دعویٰ مؤخر الذکر خود ہی ٹوٹ جاتا ہے۔ لیکن یہ عرض میری منظور نہیں کی گئی اور اصل حقیقت کو محرف کر کے منشی سعد اللہ صاحب نے جو چاہا چھپوا دیا اور لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے کی کوشش کی اور میرے پر یہ الزام بھی لگایا جاتاہے کہ وہ لیلۃ القدر سے منکر ہیں اور اس کے خلاف اجماع معنی کرتے ہیں اور یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ ملائکہ