بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ
مکرمی حضرت مولوی صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جناب آپ خوب جانتے ہیں کہ اصلی امر اس بحث میں جناب مسیح ابن مریم کی وفات یاحیات ہے اور میرے الہام میں بھی یہی اصل قرار دیا گیا ہے کیونکہ الہام یہ ہے کہ ’’مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے‘‘۔ سو پہلا اور اصل امر الہام میں بھی یہی ٹھہرایا گیا ہے کہ مسیح ابن مریم فوت ہوچکا ہے۔ اب ظاہر ہے اور ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ اگر آپ حضرت مسیح کا زندہ ہونا ثابت کر دیں گے تو جیسا کہ پہلا فقرہ الہام کا اس سے باطل ہوگا ایسا ہی دوسرا فقرہ بھی باطل ہو جائے گا کیونکہ خدا تعالیٰ نے میرے دعویٰ کی شرطِ صحت مسیح کا فوت ہونا بیان فرمایا ہے اور بحکم اذافات الشرط فات المشروط مسیح کی زندگی کے ثبوت سے دوسرا دعویٰ میرا خود ہی ٹوٹ جائے گا۔ ماسوا اس کے میرے دعویٰ مثیل مسیح میں کسی پر جبر واکراہ تو نہیں کہ خواہ مخواہ اس کو قبول کرو صرف یہ کہا جاتا ہے کہ جس پر مسیح ابن مریم کا فوت ہو جانا ثابت ہو جائے پھر وہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر میری صحبت میں رہ کر میرے دعویٰ کی آزمائش کرے اب ظاہر ہے کہ پھر وفات و حیات پر قرعہ پڑا۔ بہرحال یہی امر حقیقی اور طبعی طور پر مبحوث عنہ اور متنازعہ فیہ ٹھہرتا ہے۔ ماسوا اس کے آپ کی غرض دوسری بحث سے جو آپ کے دل میں ہے وہ اس بحث میں بھی بخوبی حاصل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ میں اقرار کرتا ہوں اور حلفاً کہتا ہوں کہ اگر آپ مسیح کا زندہ ہونا کلام الٰہی سے ثابت کر دیں گے تو میں اپنے دعویٰ سے دست بردار ہو جاؤں گا اور الہام کو شیطانی القا سمجھ لوں گا اور توبہ کروں گا۔ اب حضرت اس سے زیادہ کیا کہوں خدا تعالیٰ آپ کے دل کو آپ سمجھاوے۔ مکرر یہ کہ اوّل قرآن کریم کی رو سے دیکھا جائے گا