یتوفی ومنکم من یرو الیٰ ازدل العمر لکی لا یعلم بعد علم شیا ۳؎ پس جب کہ میرے پر یہ فرض ہی نہیں کہ میں مسیح کے فوت ہونے کے دلائل لکھوں اور ان کا فوت ہونا تو میں بیان ہی کر چکا۔ تو اب اگر میں آپ سے پہلے لکھوں تو فرمائیے کیا لکھوں یہ تو آپ کا حق ہے کہ میرے بیان کے ابطال کیلئے پہلے آپ قلم اُٹھائیں اور آیات اور احادیث سے ثابت کر دکھائیں کہ سارا جہان تو اس دنیا سے رخصت ہوتا گیا اور ہمارے نبی کریم ؐبھی وفات پاگئے مگر مسیح اب تک وفات پانے سے باقی رہا ہوا ہے۔ کسی مناظر کو پوچھ کر دیکھ لیں کہ داب مناظرہ کیا ہے۔
اب یہ بھی یاد رہے کہ آپ کی دوسری سب بحثیں مسیح کے زندہ مع الجسد اُٹھائے جانے کے فرع ہیں۔ اگر آپ یہ ثابت کر دیں گے کہ مسیح زندہ بجسدہ العنصری آسمان کی طرف اُٹھایا گیا تو پھر آپ نے سب کچھ ثابت کر دیا غرض پہلے تحریر کرنا آپ کا حق ہے اگر اب بھی آپ مانتے نہیں تو چند غیر قوموں کے آدمیوں کو منصف مقرر کر کے دیکھ لو۔
اور اخویم حکیم مولوی نورالدین صاحب کب آپ کے بلائے لاہور میں گئے تھے جنہوں نے بلایا انہوں نے مولوی صاحب موصوف سے اپنی پوری تسلی کرالی اور آپ کے ان لغو اصولوں سے بیزاری ظاہر کی تو پھر اگر مولوی صاحب آپ سے اعراض نہ کرتے تو اور کیا کرتے اعراض کا نام آپ نے فرار رکھا۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے دست بدست آپ کو دکھا دیا کہ فرار کس سے ظہور میں آیا۔ یہ مولوی صاحب کی راستبازی کی کرامت ہے جس نے آپ پر یہ مصرعہ سچا کر دیا۔ ع
مرا خواندی و خود بدام آمدی
قولہ: اگر آپ میری اس شرط کو قبول نہ کریں اور مباحثہ سے پہلے ازالہ اوہام بھیج نہ سکیں تو میں
۱؎ المؤمنون: ۴ ۲؎ سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب کف اللسان فی الفتنۃ حدیث نمبر۳۹۷۶
۳؎ النحل: ۷۱
اس شرط کی تسلیم سے آپ کو بری کرتا ہوں بشرطیکہ پہلی تحریرات آپ کی ہوں اور بعد میں میری۔
اقول: حضرت آپ ازالہ اوہام کے اکثر اوراق دیکھ چکے اب مجھے کس شرـط سے بری کرتے ہو اور میں ابھی ثابت کر چکا ہوں کہ پہلے تحریر کرنا آپ کا ذمہ ہے۔ اب دیکھئے یہ آپ کا آخری ہتھیار بھی خطا گیا۔ عنقریب یہ آپ کا خط بھی بذریعہ اخبارات پبلک کے