ساتھ جو آپ کو بھی گریز ہے آپ کی علمی وجاہت پر دھبہ نہیں لگاتے۔
قولہ: اگر آپ عین مباحثہ کے جلسہ میں اصول کی تمہید و تسلیم سے ڈریں تو میں اُن اصول کو آپ کے پاس وہاں بھیج دیتا ہوں تا آپ کو آپ کے سمجھنے کیلئے کافی مہلت مل جائے۔ ناگہانی ابتلا سے بچ جائیں اور وہ حال نہ ہو جو آپ کے حواری کا ہوا۔
اقول: حضرت آپ کو خود مناسب ہے کہ آپ ان اصولوں سے ڈریں کوئی عقلمند ان بیہودہ باتوں سے ڈر نہیں سکتا اور میں تو آپ کے ان اصولوں کو محض لغو سمجھتا ہوں اور ایسے لغویات کی طرف سے مجھے یہ آیت روکتی ہے جو اللہ جلشانہٗ فرماتا ہے۔ ۱؎ اور نیز یہ حدیث نبوی کہ من حسن الاسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ ۲؎
یہ بات ظاہر ہے کہ جو بات ضرورت سے خارج ہے وہ لغو ہے اب دیکھنا چاہئے کہ اس بحث کے لئے شرعی طور پر آپ کو کس بات کی ضرورت ہے سو ادنیٰ تامل سے ظاہر ہوگا کہ آپ صرف اس بات کے مستحق ہیں کہ مجھ سے تشخیص دعویٰ کرا دیں سو میں نے بذریعہ فتح اسلام و توضیح مرام اور نیز بذریعہ اس حصہ ازالہ اوہام کے جو قول فصیح میں شائع ہو چکا ہے اچھی طرح اپنا دعویٰ بیان کیا ہے اور میں اقرار کرتا ہوں کہ اس سے زیادہ اور کوئی میرا دعویٰ نہیں۔ آپ پر مخفی ہو اور وہ دعویٰ یہی ہے کہ میں الہام کی بنا پر مثیل مسیح ہونے کا مدعی ہوں اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہوں کہ حضرت مسیح ابن مریم درحقیقت فوت ہوگئے۔ پس سو اس عاجز کا مثیل مسیح ہونا تو آپ اشاعۃ السنۃ میں امکانی طو رپر مان چکے ہیں اور میں اس سے زیادہ آپ سے تسلیم بھی نہیں کراتا اگر میں حق پر ہوں تو خود اللہ جلشانہٗ میری مدد کرے گا اور اپنے زور آور حملوں سے میری سچائی ظاہر کر دے گا۔
رہا ابن مریم کا فوت ہونا سو فوت ہونے کے دلائل لکھنا میرے پر کچھ فرض نہیں کیونکہ میں نے کوئی ایسا دعویٰ نہیں کیا جو خدا تعالیٰ کی سنت قدیمہ کے مخالف ہو بلکہ مسلسل طور پر ابتدائے حضرت آدم سے یہی طریق جاری ہے جو پیدا ہوا وہ آخر ایک دن جوانی کی حالت میں یا بڈھا ہو کر مرے گا جیسا کہ اللہ جلشانہٗ فرماتے ہیں ومنکم من