سامنے پیش کیا جاوے گا تا لوگ دیکھ لیں کہ آپ کی تحریرات کہاں تک راستی اور حق پسندی اور حق طلبی ہے۔
بالآخر ایک مثال بھی سنیئے زید ایک مفقود الخبر ہے۔ جس کے گم ہونے پر مثلاً دو سَو برس گذر گیا۔ خالد اور ولید کا اس کی حیات اور موت کی نسبت تنازع ہے اور خالد کو ایک خبر دینے والے نے خبر دی کہ درحقیقت زید فوت ہو گیا لیکن ولید اُس خبر کا منکر ہے اب آپ کی کیا رائے ہے بار ثبوت کس کے ذمہ ہے کیا خالد کو موافق اپنے دعویٰ کے زید کا مر جانا ثابت کرنا چاہئے یا ولید زید کا اس مدت تک زندہ رہنا ثابت کرے کیا فتویٰ ہے۔
راقم خاکسار
غلام احمد
از لودہیانہ اقبال گنج
۲۰؍ اپریل ۱۸۹۱ء
نوٹ: اس مثال سے یہ غرض ہے کہ جس پر بار ثبوت ہے اس کی طرف سے ثبوت دینے کیلئے پہلے تحریر چاہئے۔
۱۰
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ
محبی اخویم مولوی صاحب سلمہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عنایت نامہ پہنچا۔ اس عاجز کو کوئی نئی بات معلوم نہیں ہوتی۔ جس کا جواب لکھا جائے اس عاجز کے دعویٰ کی بناء الہام پر تھی مگر آپ ثابت کرتے کہ قرآن اور حدیث اس دعویٰ کے مخالف ہے اور پھر یہ عاجز آپ کے ان دلائل کو اپنی تحریر سے توڑ نہ سکتا تو آپ تمام حاضرین کے نزدیک سچے ہو جاتے اور بقول آپ کے میں اس الہام سے توبہ کرتا لیکن خدا جانے آپ کو کیا فکر تھی جو آپ نے اس راہ راست کو منظور نہ کیا۔ خیر اب ازالہ اوہام کے ردّ لکھنا شروع کیجئے لوگ خود دیکھ لیں گے۔
والسلام
خاکسار
غلام احمد عفی عنہ