آپ کے رسالہ کے جواب میں کسی اخبار میں شائع کر دیا جاوے گا۔ فقط
مرزا غلام احمد
بقلم خود
۱۶؍ اپریل ۱۸۹۱ء
۹
از عاجز عائذ باللہ الصمد مرزا غلام احمد عافاہ اللہ و ایدہ۔
بخدمت اخویم مکرم مولوی ابوسعیدمحمد حسین صاحب سلمہٗ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
عنایت نامہ پہنچا۔ باعث تعجب ہوا آپ نہ تو اظہارِحق کی غرض سے بحث کرنا چاہتے ہیں اور نہ اس جوش بے اصل سے باز رہ سکتے ہیں۔ عزیز من رحمکم اللہ یہ عاجز آپ کو کوئی الزام دینا نہیں چاہتا مگر آپ ہی کا قول و فعل آپ کو الزام دے رہا ہے آپ کا آدھی رات کو تار پہنچا کہ ابھی آؤ ورنہ شکست یافتہ سمجھے جاؤ گے کس قدر آپ کی تار پود سے مخالف ہے جو آپ اب پھیلا رہے ہیں۔ افسوس کہ آپ نے بحث کرنے کیلئے بذریعہ تار بلایا پھر آپ گریز کر گئے اور اب آپ کاخط مشت بعد از جنگ کا نمونہ ہے فضول باتوں کو پیش کر کے اور بھی تعجب میں ڈالتا ہے چنانچہ ذیل میں آپ کے اقوال کا جواب دیتا ہوں۔
قولہ: دو باتیں جن سے آپ کو ڈھیل دیتاہوں لکھتا ہوں۔
اقول: حضرت یہ تو آپ حیلہ حوالہ سے اپنے تئیں ڈھیل دے رہے ہیں میں نے کب کہا تھا کہ مجھے ڈھیل دیں آپ کی آدھی رات کو تار آئی میں تیار ہو گیا آپ کی اصل حقیقت معلوم کرنے کیلئے خرچ دے کر بلاتوقف اپنا آدمی روانہ کیا۔ بحث منظور کر لی سب انتظام مجلس اپنے ذمہ لے لیا مگر آپ ہماری تیاری کا نام سنتے ہی کنارہ کش ہوگئے اب سوچیں کہ کیا میں نے بحث کو ڈھیل میں ڈال دیا یا آپ نے اگر میں آپ ہی لاہور میں پہنچتا تو کس قدر تکلیف ہوتی آپ کی اس حرکت نے نہ صرف آپ کو شرمندہ کیا بلکہ آپ کی تمام عقلمند پارٹی کو خجالت کا حصہ دیا اس کنارہ کشی کا آپ پر بڑا بار ہے کہ جو بودے عذروں سے دُور نہیں ہو سکتا آپ نے ناگوار طریقہ سے مقابل پر آنے کی دھمکی تو دی مگر آخر آپ ہی نہ ٹھہر سکے کیا اس دعویٰ کے