مکرر یہ کہ جس قدر ورق لکھنے کیلئے آپ پسند کر لیں اس قدر اوراق پر لکھنے کی مجھے اجازت دی جائے لیکن یہ پہلے سے جلسہ میں تصفیہ پا جانا چاہئے کہ آپ اس قدر اوراق لکھنے کے لئے کافی سمجھتے ہیں اور آنمکرم اس بات کو خوب یاد رکھیں کہ پرچے صرف دو ہوں گے اوّل آپ کی طرف سے ان دونوں بیانات کا ردّ ہوگا جو میں نے لکھا ہے کہ میں مثیل مسیح ہوں اور نیز یہ کہ حضرت مسیح ابن مریم درحقیقت وفات پا گئے ہیں پھر اس ردّکے ردّ الردّ کیلئے میری طرف سے تحریر ہوگی۔ غرض پہلے آپ کا یہ حق ہوگاکہ جو کچھ ان دعاوی کے بطلان کیلئےآپ کے پاس ذخیرۂ نصوص قرآنیہ و حدیثہ موجود ہے وہ آپ پیش کریں پھر جس طرح خدا تعالیٰ چاہئے گا یہ عاجز اس کا جواب دے گا اور بغیر اس طریق کے جس کے انصاف پر بنا اور نیز امن رہنے کیلئے احسن انتظام ہے اور کوئی طریق اس عاجز کو منظور نہیں اگر یہ طریق منظور نہ ہو تو پھر ہماری طرف سے یہ آخری تحریر تصور فرماویں اور خود بھی خط لکھنے کی تکلیف روا نہ رکھیں اور بحالت انکار ہرگز کوئی تحریر یا کوئی خط میری طرف نہ لکھیں اگر پوری اور کامل طور پر بلا کم و بیش میری رائے ہی منظور ہو تو صرف اس حالت میں جواب تحریر فرماویں ورنہ نہیں۔ آج بھوپال سے ایک کارڈ مرقومہ ۹؍ اپریل ۱۸۹۱ء اخویم مولوی محمد احسن صاحب مہتمم مصارف ریاست پڑھ کر آپ کے اخلاق کریمانہ اور مہذبانہ تحریر کا نمونہ معلوم ہوگیا آپ اپنے کارڈ میں فرماتے ہیں کہ میں نے مرزا غلام احمد کے اس دعویٰ جدید کی اپنے ریویو میں تصدیق نہیں کی بلکہ اس کی تکذیب خود براہین میں موجود ہے آپ بلارویت مرزا پر ایمان لے آئے آپ ذرا ایک دفعہ آ کر اس کو دیکھ تو لیں تَسْمَعُ بِالبعید سے خَیْرٌ مِنْ أنْ امراہ اشاعت السنۃ میں اب ثابت ہوتا رہے گا کہ یہ شخص ملہم نہیں ہے فقط حضرت مولوی صاحب من آنم کہ من دانم۔ آپ جہاں تک ممکن ہے ایسے الفاظ استعمال کیجئے میں کہتا ہوں اور میری شان کیا بے شک آپ جو چاہیں لکھیں اور اس وعدہ تہذیب کی پرواہ نہ رکھیں جس کو آپ چھاپ چکے ہیں۔ ربی یسمیع ویری والسلام علی من اتبع الھدی۔ خاکسار غلام احمد آج ۱۶؍ اپریل ۱۸۹۱ء کو آپ کی خدمت میں خط بھیجا گیا ہے اور ۲۰؍ اپریل ۱۸۹۱ء تک آپ کے جواب کے انتظار رہیں گے اگر ۲۰؍ اپریل ۱۸۹۱ء تک آپ کا جواب نہ پہنچا تو یہی خط