سے کہا کہ اے حاضرین میری تومِن کل الوجود تسلی ہوگئی اور میرے دل میں نہ کوئی شبہ اور نہ کوئی اعتراض باقی ہے پھر بعد اس کے یہی تقریر منشی عبدالحق صاحب و منشی امیر دین صاحب اور مرزا امان اللہ صاحب نے کی اور بہت خوش ہو کر اُن سب نے مولوی صاحب کا شکریہ ادا کیا اور تہہ دل سے قائل ہوگئے کہ اب کوئی شک باقی نہیں اور مولوی صاحب کو یہ کہہ کر رخصت کیا کہ ہم نے محض اپنی تسلی کرانے کیلئے آپ کو تکلیف دی تھی سو ہماری بکلّی تسلی ہوگئی آپ بلاجرح تشریف لے جائیے سو انہوں نے ہی بلایا اور انہوں نے ہی رخصت کیا آپ کا تو درمیان قدم ہی نہ تھا پھر آپ کا یہ جوش جو تار کے فقرات سے ظاہر ہوتا ہے کس قدر بے محل ہے آپ خود انصاف فرماویں جب کہ ان سب لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ ہم مولوی محمد حسین صاحب کو بلانا نہیں چاہتے ہماری تسلی ہوگئی اور وہی تو تھے جنہوں نے مولوی صاحب کو لدہیانہ سے بُلایا تھا تو پھر مولوی صاحب آپ سے کیوں اجازت مانگتے کیا آپ نہیں سمجھ سکتے اور اگر آپ کی یہ خواہش ہے کہ بحث ہونی چاہئے جیسا کہ آپ اپنے رسالہ میں تحریر فرماتے ہیں تو یہ عاجز بسروچشم حاضر ہے مگر تقریری بحثوں میں صدہا طرح کا فتنہ ہوتا ہے صرف تحریری بحث چاہئے اور وہ یوں ہو کہ مساوی طور پر چار ورق کاغذ پر آپ جو چاہیں لکھ کر پیش کریں اور لوگوں کو بآوازبلند سناویں اور ایک نقل اس کی اپنے دستخط سے مجھے دے دیں پھر بعد اس کے میں بھی چار ورق پر اس کا جواب لکھوں اور لوگوں کو سنا دوں ان دونوں پرچوں پر بحث ختم ہو جائے اور فریقین میں سے کوئی ایک کلمہ تک تقریری طور پر اس بحث کے بارہ میں نہ کرے جو کچھ ہو تحریر میں ہو اور پرچے صرف دو ہوں اوّل آپ کی طرف سے ایک چورقہ پرچہ جس میں آپ میرے مشہور کردہ دعویٰ کا قرآن کریم اور حدیث کی رو سے ردّ لکھیں اور پھر دوسرا پرچہ چورقہ اس تقطیع کا میری طرف سے ہو جس میں اللہ جلشانہٗ کے فضل و توفیق سے ردّ الرد لکھوں اور انہوں دونوں پرچوں پر بحث ختم ہو جائے اگر آپ کو ایسا منظور ہو تو میں لاہور میں آ سکتا ہوں اور انشاء اللہ تعالیٰ امن قائم رکھنے کیلئے انتظام کرا دوں گا یہی آپ کے رسالہ کا بھی جواب ہے۔ اب اگر آپ نہ مانیں تو پھر آپ کی طرف سے گریز تصور ہوگی۔
راقم خاکسار غلام احمد از لدھیانہ
محلہ اقبال گنج ۱۶؍ اپریل ۱۸۹۱ء