تو محض للہ اس طریق کو منظور کریں۔ وماقول الاللّٰہ والسلام علی من اتبع الھدی
خاکسار غلام احمد از لودھیانہ محلہ اقبال گنج ۱۴؍مارچ ۹۱ء
نمبر ۸
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
نَحْمَدُٗہٗ وَنُصَلِّیْ
از عایذ باللہ الصمد غلام احمد عافاہ اللہ وایدہ
بخدمت اخویم مولوی ابو سعید محمد حسین صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا تار جس میں یہ لکھا تھا کہ تمہارے وکیل بھاگ گئے ان کو لوٹاؤ یا آپ آؤ ورنہ شکست یافتہ سمجھے جاؤ گے۔ پہنچا۔ اے عزیر شکست اور فتح خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے جس کو چاہتا ہے فتح مند کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے شکست دیتا ہے کون جانتا ہے کہ واقعی طور پر فتحمند کون ہونے والا ہے اور شکست کھانے والاکون ہے جو آسمان پر قرار پا گیا ہے وہی زمین پر ہوگا گو دیرسے ہی سہی لیکن اس عاجز کو تعجب ہے کہ آپ نے کیونکر یہ گمان کر لیا حبی فی اللہ مولوی حکیم نورالدین صاحب آپ سے بھاگ کر چلے آئے۔ آپ نے ان کو کب بلایا تھا کہ تا وہ آپ سے اجازت مانگ کر آتے۔ اصل بات تو اس قدر تھی کہ حافظ محمد یوسف صاحب نے مولوی صاحب ممدوح کی خدمت میں خط لکھا تھا کہ مولوی عبدالرحمن اس جگہ آئے ہوئے ہیں ہم نے ان کو دو تین روز کے لئے ٹھہرا لیا ہے تا کہ ان کے روبُرو ہم بعض مشبہات اپنے آپ سے دور کرا لیں اور یہ بھی لکھ کہ ہم اس مجلس میں مولوی محمد حسین صاحب کو بھی بلا لیں گے چونکہ مولوی صاحب موصوف حافظ صاحب کے اصرار کی وجہ سے لاہور میں پہنچے اور منشی امیرالدین صاحب کے مکان پر اُترے اور اس تقریب پر حافظ صاحب نے اپنی طرف سے آپ کو بھی بلا لیا۔ تب مولوی عبدالرحمن صاحب تو عین تذکرہ میں اُٹھ کر چلے گئے اور جن صاحبوں نے آپ کو بلایا تھا انہوں نے مولوی صاحب کے آگے بیان کیا کہ ہمیں مولوی محمد حسین صاحب کا طریق بحث پسند نہیں آیا۔ یہ سلسلہ تو دو برس تک بھی ختم نہیں ہوگا۔ آپ خود ہمارے سوالات کا جواب دیجئے۔ ہم مولوی محمد حسین صاحب کے آنے کی ضرورت نہیں دیکھتے اور نہ انہوں نے آپ کو بلایا ہے تب جو کچھ ان لوگوں نے پوچھا مولوی صاحب موصوف نے بخوبی ان کی تسلی کر دی۔ یہاں تک کہ تقریر ختم ہونے کے بعد حافظ محمد یوسف صاحب نے بانشراح صدر آواز