یہ نور متعدی ثابت ہوگا اسی کی نسبت عقل تجویز کرے گی کہ یہی مذہب زندہ اور سچا ہے کیونکہ اگر ہم ایک مذہب کے ذریعہ سے وہ زندگی اور پاک نور معہ اس کی تمام علامتوں کے حاصل نہیں کر سکتے جو اس کی نسبت بیان کیا جاتا ہے تو ایسا مذہب بجز لاف و گزاف کے زیادہ نہیں اگر ہم فرض کر لیں کہ کوئی نبی پاک تھا مگر ہم میں سے کسی کو بھی پاک نہیں کر سکتا اور صاحب خوارق تھا مگر کسی کو صاحب خوارق نہیں بنا سکتا اور الہام یافتہ تھا مگر ہم میں سے کسی کو مہلم نہیں بنا سکتا تو ایسے نبی سے ہمیں کیا فائدہ۔ الحمدللہ والمنتہ کہ ہمارا سید و رسول خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہیں تھا اس نے ایک جہان کو وہ نور حسب مراتب استعداد بخشا کہ جو اس کو ملا تھا اور اپنے نورانی نشانوں سے وہ شناخت کیا گیا وہ ہمیشہ کے لئے نور تھا جو بھیجا گیا اور اس سے پہلے کوئی ہمیشہ کے لئے نور نہیں آیا اگر وہ نہ آتا اور نہ اس نے بتلایا ہوتا تو مسیح کے نبی ہونے پر ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں تھی کیونکہ اس کا مذہب مر گیا اور اس کا نور بے نشان ہو گیا اور کوئی وارث نہ رہا جو اس کو کچھ نور دیا گیا ہو۔ اب دنیا میں زندہ مذہب اسلام ہے اور اس عاجز نے ذاتی تجارب سے دیکھ لیا اور پرکھ لیا کہ دونوں قسم کے نور اسلام اور قرآن میں اب بھی ایسے ہی تازہ بتازہ موجود ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت موجود تھے اور ہم ان کے دکھلانے کے لئے ذمہ وار ہیں اگر کسی کو مقابلہ کی طاقت ہے تو ہم سے خط و کتابت کرے۔ والسلام علی من اتبع الہدی۔ بالآخر یہ بھی واضح رہے کہ اس عاجز کے مقابلہ پر جو صاحب کھڑے ہوں وہ کوئی بزرگ نامی اور معزز انگریز پادری صاحبوں میں سے ہونے چاہئیں کیونکہ جو بات اس مقابلہ اور مباحثہ سے مقصود ہے اور جس کا اثر عوام پر ڈالنا مدنظر ہے وہ اسی امر پر موقوف ہے کہ فریقین اپنی اپنی قوم کے خواص میں سے ہوں۔ ہاں بطور تنزل اور اتمام حجت مجھے یہ بھی منظور ہے کہ اس مقابلہ کے لئے پادری عمادالدین صاحب یا پادری ٹھاکر داس صاحب یا مسٹر عبداللہ آتھم صاحب عیسائیوں کی طرف سے منتخب ہوں اور پھر اُن کے اسماء کسی اخبار کے ذریعہ شائع کر کے ایک پرچہ اس عاجز کی طرف بھی بھیجا جاوے اور اس کے