کہ زندہ مذہب وہی ہو سکتا ہے کہ جن دلائل پر ان کی صحبت کی بنیاد ہے وہ دلائل بطور قصہ کے نہ ہوں بلکہ دلائل ہی کے رنگ میں اب بھی موجود اور نمایاں ہوں۔ مثلاً اگر کسی کتاب میں بیان کیا گیا ہو کہ فلاں نبی نے بطور معجزہ ایسے ایسے بیماروں کو اچھا کیا تھا تو یہ اور اس قسم کے اَوْر امور اس زمانہ کے لوگوں کے لئے ایک قطعی اور یقینی دلیل نہیں ٹھہر سکتی بلکہ ایک خبر ہے جو منکر کی نظر میں صدق اور کذب دونوں کا احتمال رکھتی ہے بلکہ منکر ایسی خبروں کو صرف ایک قصہ سمجھے گا۔ اسی وجہ سے یورپ کے فلاسفر مسیح کے معجزات سے جو انجیل میں مندرج ہیں کچھ بھی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے بلکہ اس پر قہقہ مار کر ہنستے ہیں۔ پس جب کہ یہ بات ہے تو یہ نہایت آسان مناظرہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اہل اسلام کا کوئی فرد اس تعلیم اور علامات کے موافق جو کامل مسلمان ہونے کے لئے قرآن میں موجود ہیں اپنے نفس کو ثابت کرے اور اگر نہ کر سکے تو دروغ گو ہے نہ مسلمان؟ اور ایسا ہی عیسائی صاحبوں میں سے ایک فرد اس تعلیم اور علامات کے موافق جو انجیل شریف میں موجود ہیں اپنے نفس کو ثابت کر کے دکھلائے اور اگر وہ ثابت نہ کر سکے تو دروغ گو ہے نہ عیسائی۔ جس حالت میں دونوں فریق کا یہ دعویٰ ہے کہ جس نور کو ان کے انبیاء لائے تھے وہ نور فقط لازمی نہ تھا بلکہ متعدی تھا تو پھر جس مذہب میں (بقیہ حاشیہ ) درپے نہیں ہیں۔ مگر فقط اس بنا سے کہ جو باتیں راست برحق اور پسندیدہ ہیں سب صاحبان پر خوب ظاہر ہوں۔ دیگر التماس یہ ہے کہ اگر صاحبان اہل اسلام ایسے مباحثہ میں شریک نہ ہونا چاہیں تو آئندہ کو اپنے اسپ کلام کو میدان گوفتگو میں جولانی نہ دیں اور وقت منادی یا دیگر موقعوں پر حجت بے بنیاد و لاحاصل سے باز آ کر خاموشی اختیار کریں۔ از راہ مہربانی اس خط کا جواب جلدی عنایت فرماویں تا کہ اگر آپ ہماری دعوت کو قبول کریں تو جلسہ کا اور ان مضامین کا جن کی بابت مباحثہ ہونا معقول انتظام کیا جائے۔ فقط۔ زیادہ سلام (الراقم مسیحان جنڈیالہ مارٹن کلارک امرتسر (دستخط انگریزی میں ہیں)