مجھے اتفاق رائے ہے بلکہ درحقیقت میں اس مضمون کے پڑھنے سے ایسا خوش ہوا کہ میں مختصر خط میں اس کی کیفیت بیان نہیں کر سکتا۔ یہ بات سچ اور بالکل سچ ہے کہ یہ روز کے جھگڑے اچھے نہیں اور ان سے دن بدن عداوتیں بڑھتی ہیں اور فریقین کی عافیت اور آسودگی میں خلل پڑتا ہے اور یہ بات تو ایک معمولی سی ہے۔ اس سے بڑھ کر نہایت ضروری اور قابل ذکر یہ بات ہے کہ جس حالت میں دونوں فریق مرنے والے اور دنیا کو چھوڑنے والے ہیں تو پھر اگر بحث کر کے اظہار حق نہ کریں تو اپنے نفسوں اور دوسروں پر ظلم کرتے ہیں۔ اب میں دیکھتا ہوں کہ جنڈیالہ کے مسلمانوں کا ہم سے کچھ زیادہ حق نہیں بلکہ جس حالت میں خداوندکریم اور رحیم نے اس عاجز کو انہیں کاموں کیلئے بھیجا ہے تو ایک سخت گناہ ہوگا کہ ایسے موقع پر خاموش رہوں۔ اس لئے میں آپ لوگوں کو اطلاع دیتا ہوں کہ اس کام کے لئے میں ہی حاضر ہوں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ فریقین کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کو اپنا اپنا مذہب بہت سے نشانوں کے ساتھ خدا تعالیٰ سے ملا ہے اور یہ بھی فریقین کو اقرار ہے
۔۔۔۔
(بقیہ حاشیہ ) کے حق میں کئی ایک تحقیقاتیں کر لی ہیں اور مبالغہ از حد ہو چلا ہے لہٰذا راقم رقیمہ ہذا کی دانست میں طریقہ بہتر اور مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک جلسہ عام کیا جائے جس میں صاحبان اہل اسلام مع علماء و دیگر بزرگان دین کے جن پر کہ ان کی تسلی ہو موجود ہوں اور اسی طرح سے مسیحوں کی طرف بھی کوئی صاحب اعتبار پیش کئے جاویں تا کہ جو باہمی تنازعہ ان دنوں میں ہو رہے ہیں خوب فیصل کئے جاویں اور نیکی اور بدی اور حق اور خلاف ثابت ہوویں لہٰذا چونکہ اہل اسلام جنڈیالہ کے درمیان آپ صاحبِ ہمت گنے جاتے ہیں ہم آپ کی خدمت میں از طرف مسیحان جنڈیالہ التماس کرتے ہیں کہ آپ خواہ خواہ یا اپنے ہم مذہبوں سے مصلحت کر کے ایک وقت مقرر کریں اور جس کسی بزرگ پر آپ کی تسلی ہو اُسے طلب کریں اور ہم بھی وقت معین پر محفل شریف میں کسی اپنے بزرگ کو پیش کریں گے کہ جلسہ اور فیصلہ امورات مذکورہ بالا کا بخوبی ہو جاوے اور خداوند صراط مستقیم سب کو حاصل کرے۔ ہم کسی ضد اور فساد یا مخالفت کے رو سے اس جلسہ کے