مثلاً اگر یہ کہوں کہ میری دانست میں زید جو ایک شہر کا معزز اور نیک نام رئیس ہے فلاں ڈاکہ میں شریک نہیں ہے یا فلاں عورت کو جو چند آدمی زنا کے لئے بہلا کرلے گئے تھے۔ اس سازش سے زید کا کچھ تعلق نہ تھا تو ایسے بیان میں مَیں زید کی ایک طریق سے ازالہ حیثیت عرفی کر رہا ہوں کیونکہ پوشیدہ طور پر پبلک کو احتمال کا موقع دیتا ہوں کہ وہ اس مادہ کا آدمی ہے گو اس وقت شریک نہیں ہے پس خدا کے نبیوں کی تعریف اسی حد تک ختم کر دینا بلاشبہ ان کی ایک سخت مذمت ہے اور ابھی بات کو ان کا بڑا کمال سمجھنا کہ جرائم پیشہ لوگوں کی طرح ناجائز تکالیف عامہ سے انہوں نے اپنے تئیں بچایا ان کے مرتبہ عالیہ کی بڑی ہتک ہے۔ اوّل تو بدی سے باز رہنا جس کومعصومیت کہا جاتا ہے کوئی اعلیٰ صفت نہیں ہے دنیا میں ہزاروں اس قسم کے لوگ موجود ہیں کہ ان کو موقع نہیں ملا کہ وہ نقب لگائیں یادھاڑا ماریں یا خون کریں یا شیر خوار بچوں کا گلا گھونٹیں یا بیچاری کمزور عورتوں کا زیور کانوں سے توڑ کر لے جائیں۔ پس ہم کہاں تک اس ترک شر کی وجہ سے لوگوں کو اپنے محسن ٹھہراتے جائیں اور ان کو محض اسی وجہ سے انسان کامل مان لیں؟ ماسوائے اس کے ترک شر کے لئے جس کو دوسرے لفظوں میں معصومیت کہتے ہیں بہت سے وجوہ ہیں ہر ایک کو یہ لیاقت کب حاصل ہے کہ رات کو اکیلا اُٹھے اور حربہ نقب ہاتھ میں لے کر اور لنگوٹی باندھ کر کسی کوچے میں گھس جائے اور عین موقعہ پر نقب لگا دے اور مال قابو میں کرے اور پھر جان بچا کربھاگ جائے۔ اس قسم کی مشقیں نبیوں کو کہاں ہیں اور بغیر لیاقت اور قوت کے جرأت پیدا ہی نہیں ہوسکتی۔ ایسا ہی زناکاری بھی قوت مردمی کی محتاج ہے اور اگر مرد ہو بھی تب بھی محض خالی ہاتھ سے غیر ممکن ہے بازاری عورتوں نے اپنے نفس کو وقف تو نہیں کر رکھا وہ بھی آخر کچھ مانگتی ہیں۔ تلوار چلانے کیلئے بھی بازو چاہئے اور کچھ اٹکل بھی اور کچھ بہادری اور دل کی قوت بھی بعض ایک چڑیا کو بھی نہیں مار سکتے اور ڈاکہ مارنا بھی ہر ایک بزدل کا کام نہیں اب اس بات کا کون فیصلہ کرے کہ مثلاً ایک شخص جو ایک پُر ثمر باغ کے پاس پاس جا رہا ھا