اپنا یہ احسان جتلائے کہ باوجودیکہ میں نے کئی دفعہ یہ موقعہ پایا کہ تیرے گھر کو آگ لگا دوں اور تیرے شیرخوار بچے کا گلا گھونٹ دوں مگر پھر بھی میں نے آگ نہیں لگائی اور نہ تیرے بچے کا گلا گھونٹا۔ تو ظاہر ہے کہ عقلمندوں کے نزدیک یہ کوئی اعلیٰ درجہ کی نیکی نہیں سمجھی جائے گی اور نہ ایسے حقوق اور فضائل کو پیش کرنے والا بھلا مانس انسان خیال کیا جائے گا۔ ورنہ ایک حجام اگر یہ احسان جتلا کر ہمیں ممنون بنانا چاہے کہ بالوںکے کاٹنے یا درست کرنے کے وقت مجھے یہ موقع ملا تھا کہ میںتمہارے سر یا گردن یا ناک پر استرہ مار دیتا مگر میں نے یہ نیکی کی کہ نہیں مارا؟ تو کیا اس سے وہ ہمارا اعلیٰ درجہ کا محسن ٹھہر جائے گا اور والدین کے حقوق کی طرح اس کے حقوق بھی تسلیم کئے جائیں گے؟ نہیں بلکہ وہ ایک طور کے جرم کا مرتکب ہے جو اپنی ایسی صفات ظاہر کرتا ہے اور ایک دانشمند حاکم کے نزدیک ضمانت لینے کے لائق ہے۔ غرض یہ کوئی اعلیٰ درجہ کا احسان نہیں ہے کہ کسی نے بدی کرنے سے اپنے تئیں بچائے رکھا کیونکہ قانون سزا بھی تو اُسے روکتا تھا۔ مثلاً اگر کوئی شیریر نقب لگائے یا اپنے ہمسایہ کا مال چرانے سے رک گیا ہے تو کیا اس کی یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ وہ اس شرارت سے باز رہ کر اس سے نیکی کرنا چاہتا تھا بلکہ قانون سزا بھی تو اُسے ڈرا رہا تھا کیونکہ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اگر میں نقب زنی کے وقت یا کسی کے گھر میں آگ لگانے کے وقت یا کسی بے گناہ پر پستول چھوڑنے کے وقت یا کسی بچے کا گلا گھوٹنے کے وقت پکڑ گیا تو پھر گورنمنٹ پوری سزا دے کر جہنم تک پہنچائے گی۔ غرض اگر یہی حقیقی نیکی اور انسان کا اعلیٰ جوہر ہے تو پھر ہم تمام جرائم پیشہ ایسے لوگوں کے محسن ٹھہر جائیں گے جن کو انہوں نے کوئی ضرر نہیں پہنچایا۔ لیکن جن بزرگواروں کو ہم انسان کامل کا خطاب دینا چاہتے ہیں کیا ان کی بزرگی کے اثبات کیلئے ہمیں بھی وجوہ پیش کرنے چاہئیں کہ کبھی انہوں نے کسی شخص کے گھر کو آگ نہیں لگائی، چوری نہیں کی، کسی بیگانہ عورت پر حملہ نہیں کیا، ڈاکہ نہیں مارا، کسی بچے کا گلا نہیں گھونٹا حاشاوکلا یہ کمینہ باتیں ہرگز کمال کی وجوہ نہیں ہو سکتیں بلکہ ایسے ذکر سے تو ایک طور سے ہجو نکلتی ہے۔