اس نے اس باغ کا اس لئے بے اجازت پھل نہیں توڑا کہ وہ ایک بڑا مقدس انسان تھا کیا وجہ کہ ہم یہ نہ کہیں کہ اس لئے نہیں توڑا کہ دن کا وقت تھا پچاس محافظ باغ میںموجود تھے۔ اگر توڑتا تو پکڑا جاتا مار کھاتا بے عزت ہوتا۔ اس قسم کی نبیوں کی تعریف کرنا اور بار بار معصومیت پیش کرنا اور دکھلانا کہ انہوں نے ارتکاب جرائم نہیں کیا سخت مکروہ اور ترک ادب ہے۔ ہاں ہزاروں صفات فاضلہ کی ضمن میں اگر یہ بھی بیان ہو تو کچھ مضائقہ نہیں۔ مگر صرف اتنی ہی بات کہ اس نبی نے کبھی کسی بچے کا دوچار آنہ کے طمع کے لئے گلا نہیں گھونٹا یا کسی اور کمینہ بدی کا مرتکب نہیں ہوا یہ بلاشبہ ہجو ہے یہ ان لوگوں کے خیال ہیں جنہوں نے انسان کی حقیقی نیکی اور حقیقی کمال میں کبھی غور نہیں کیا۔ جس شخص کا نام ہم انسان کامل رکھتے ہیں ہمیں نہیں چاہئے کہ محض ترک شر کے پہلو سے اس کی بزرگی کا وزن کریں کیونکہ اس وزن سے اگر کچھ ثابت ہو تو صرف یہ ہوگا کہ ایسا انسان بدمعاشوں کے گروہ میں سے نہیں ہے معمولی بھلے مانسوں میں سے ہے کیونکہ جیسا کہ ابھی میں نے بیان کیا ہے محض شرارت سے باز رہنا کوئی اعلیٰ خوبیوں کی بات نہیں ایسا تو کبھی سانپ بھی کرتا ہے کہ آگے سے خاموش گزر جاتا ہے اور حملہ نہیں کرتا اور کبھی بھیڑیا بھی سامنے سے سرنگوں گزر جاتا ہے۔ ہزاروں بچے ایسی حالت میں مر جاتے ہیں اور کوئی ضرر بھی کسی انسان کو انہوں نے نہیں پہنچایا تھا بلکہ انسان کامل کی شناخت کے لئے کسب خیر کا پہلو دیکھنا چاہئے یعنی یہ کہ کیاکیا حقیقی نیکیاں اس سے ظہور میں آئیں اور کیا کیا حقیقی کمالات اس کے دل اور دماغ اور کانشنس میں موجود ہیں اور کیا کیا صفات فاضلہ اس کے اندر موجود ہیں۔ سو یہی وہ امر ہے جس کو پیش نظر رکھ کر حضرت مسیح کے ذاتی کمالات اور انواع خیرات اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات اور خیرات کو ہر ایک پہلو سے جانچنا چاہئے۔ مثلاً سخاوت، فتوت مواسات، حقیقی حلم جس کے لئے قدرت سخت گوئی شرط ہے۔ حقیقی عفو جس کے لئے قدرت انتظام شرط ہے۔ حقیقی شجاعت جس کے لئے خوفناک دشمنوں کا مقابلہ شرط ہے حقیقی