بحثیں محض خدا کے لئے ہیں تو ہمیں وہی راہ اختیار کرنی چاہئے جس میں کوئی اشتباہ اور کدورت نہ ہو کیا یہ سچ نہیں ہے کہ معصومیت کی بحث میں پہلے قدم میں ہی یہ سوال پیش آئے گا کہ مسلمانوںاور یہودیوں کے عقیدہ کے رو سے جو شخص عورت کے پیٹ سے پیدا ہو کر خدا یا خدا کا بیٹا ہونا اپنے تئیں بیان کرتا ہے وہ سخت گناہگار بلکہ کافر ہے تو پھر اس صورت میں معصومیت کیا باقی رہی اور اگر کہو کہ ہمارے نزدیک ایسا دعویٰ نہ گناہ نہ کفر کی بات ہے تو پھر اُسی الجھن میں آپ پڑ گئے جس سے بچنا چاہئے تھا کیونکہ جیسا آپ کے نزدیک حضرت مسیح کے لئے خدائی کادعویٰ کرنا گناہ کی بات نہیں ہے ایسا ہی ایک شاکت مت والے کے نزدیک ماں بہن سے بھی زنا کرنا گناہ کی بات نہیں ہے اور آریہ صاحبوں کے نزدیک ہر ایک ذرّہ کو اپنے وجود کا آپ ہی خدا جاننا اور اپنی پیاری بیوی کو باوجود اپنی موجودگی کے کسی دوسرے سے ہمبستر کا دینا کچھ بھی گناہ کی بات نہیں اور سناتن دھرم والوں کے نزدیک راجہ رامچندر اور کرشن کو اوتار جاننا اور پرمیشور ماننا اور پتھروں کے آگے سجدہ کرنا کچھ گناہ کی بات نہیں اور ایک گبر کے نزدیک آگ کی پوجا کرنا کچھ گناہ کی بات نہیں اور ایک فرقہ یہودیوں کے مذہب کے موافق غیر قوموں کے مال کی چوری کر لینا اور ان کو نقصان پہنچانا کچھ گناہ کی بات نہیں اور بجز مسلمانوں کے سب کے مذہب کے نزدیک سود لینا کچھ گناہ کی بات نہیں تو اب ایسا کون فارغ ہے کہ ان جھگڑوں کا فیصلہ کرے اس لئے حق کے طالب کے لئے افضل اور اعلیٰ نبی کی شناخت کے لئے یہی طریق کھلا ہے جو میں نے بیان کیا ہے اور اگر ہم فرض بھی کر لیں تو تمام قومیں معصومیت کی وجوہ ایک ہی طور سے بیان کرتی ہیں یعنی اس بیان میں اگر تمام مذہبوں والے متفق بھی ہوں کہ فلاں فلاں امر گناہ میں داخل ہے جس سے باز رہنے کی حالت میں انسان معصوم کہلا سکتا ہے تو گو ایسا فرض کرنا غیر ممکن ہے تا ہم محض اس امر کی تحقیق ہونے سے کہ ایک شخص شراب نہیں پیتا، رہزنی نہیں کرتا، ڈاکہ نہیں مارتا، خون نہیں کرتا، جھوٹی گواہی نہیں دیتا ایسا شخص صرف اس قسم کی معصومیت کی وجہ سے انسان کامل ہونے کا ہرگز مستحق نہیں ہو سکتا اور نہ کسی حقیقی اور اعلیٰ نیکی کا مالک ٹھہر سکتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی کسی کو