کے مذہب میں سُؤر کا چھونا بھی انسان کو ناپاک کر دیتا ہے اور دوسرے کے مذہب میں سفید و سیاہ سُؤربہت عمدہ غذا ہیں۔ اب اس سے ظاہر ہے کہ گناہ کے مسئلہ میں دنیا کو کلی اتفاق نہیں ہے۔ عیسائیوں کے نزدیک حضرت مسیح خدائی کا دعویٰ کر کے پھر بھی اوّل درجہ کے معصوم ہیں مگر مسلمانوں کے نزدیک اس سے بڑھکر کوئی بھی گناہ نہیں کہ انسان اپنے تئیں یا کسی اور کو خدا کے برابر ٹھہرا دے غرض یہ طریق مختلف فرقوں کے لئے ہر گز حق شناسی کا معیار نہیں ہو سکتا جو بشپ صاحب نے اختیار کیا ہے ہاں یہ طریق نہایت عمدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا علمی اور عملی اور اخلاقی اور تقدسی اور برکاتی اور تاثیراتی اور ایمانی اورعرفانی اور افاضۂ خیر اور طریق معاشرت وغیرہ وجوہ فضائل ہیں باہم موازنہ اور مقابلہ کیا جائے یعنی یہ دکھلایا جاوے کہ ان تمام امور میں کس کی فضیلت اور فوقیت ثابت ہے اور کس کی ثابت نہیں کیونکہ جب ہم کلام کلی کے طور پر تمام طریق فضیلت کو مدنظر رکھ کر ایک نبی کے وجودہ فضائل بیان کریں گے تو ہم پر یہ طریق بھی کھلا ہوگا کہ اُسی تقریب پر ہم اُس نبی کی پاک باطنی اور تقدس اور طہارت اور معصومیت کے وجوہ بھی جس قدر ہمارے پاس ہوں بیان کر دیں اور چونکہ اس قسم کا بیان صرف ایک جزوی بیان نہیں ہے بلکہ بہت سی اور شاخوں پر مشتمل ہے اس لئے پبلک کے لئے آسانی ہوگی کہ اس تمام مجموعہ کو زیر نظر رکھ کر اس حقیقت تک پہنچ جاویں کہ ان دونوں نبیوں میں سے درحقیقت افضل اور اعلیٰ شان کس نبی کو حاصل ہے اور گو ہر ایک شخص فضائل کو بھی اپنے مذاق پرہی قرار دیتا ہے مگر چونکہ یہ انسانی فضائل کا ایک کافی مجموعہ ہوگا اس لئے اس طریق سے افضل اور اعلیٰ کے جانچنے میں وہ مشکلات نہیں پڑیں گے جو صرف معصومیت کی بحث میں پڑتی ہیں۔ بلکہ ہر ایک مذاق انسان کے لئے اس مقابلہ اور موازنہ کے وقت رور ایک ایسا قدر مشترک حاصل ہو جائے گا جس سے بہت صاف اور سہل طریقہ پر نتیجہ نکل آئے گا کہ ان تمام فضائل میں سے فضائل کثیرہ کا مالک اور جامع کون ہے۔ پس اگر ہماری