الٰہیہ و رویائے صالحہ سے خدا تعالیٰ کے مخصوص بندوں کو جو اس کے ولی ہیں ضرور حصہ ملتا ہے اور ان کی ولایت کا بھاری نشان یہی ہے کہ مکالمات و مخاطبات الٰہیہ سے مشرف ہوں (یہی قانون قدرت اللہ جلشانہ کا ہے) کہ جو لوگ ارباب متفرقہ سے منہ پھیر کر اللہ جلشانہٗ کو اپنا ربّ سمجھ لیں اور کہیں کہ ہمارا تو ایک اللہ ہی ربّ ہے (یعنی اور کسی کی ربوبیت پر ہماری نظر نہیں) اور پھر آزمائشوں کے وقت میں مستقیم رہیں (کیسے ہی زلزلے آویں آندھیاں چلیں تاریکیاں پھیلیں ان میں ذرا تزلزل اور تغیر اور اضطراب پیدا نہ ہو پوری پوری استقامت پر رہیں) تو ان پر فرشتے اُترتے ہیں یعنی الہام اور رؤیائے صالحہ کے ذریعہ سے انہیں بشارتیں ملتی رہتی ہیںکہ دنیا و آخرت میں ہم تمہارے دوست اور متولی اور متکفل ہیں اور آخرت میں جو کچھ تمہارے جی چاہیں گے وہ سب تمہیں ملے گا۔ یعنی اگر دنیا میں کچھ مکروہات بھی پیش آویں تو کوئی اندیشہ کی بات نہیں کیونکہ آخرت
۱؎ یاد رہے یہ قرآن مجید کی مختلف مقامات کی آیتیں ہیں۔ (ایڈیٹر)
میں تمام غم دور ہو جائیں گے اور سب مرادیں حاصل ہوں گی اگر کوئی کہے کہ یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ آخرت میں جو کچھ انسان کا۔
اب جاننا چاہئے کہ محبوبیت اور قبولیت اور ولایت حقہ کا درجہ جس کے کسی قدر مختصر طو رپر نشان بیان کر چکا ہوں۔ یہ بجز اتباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا۔ نفس چاہے اس کو ملے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ ہونا نہایت ضروری ہے اور اسی بات کا نام نجات ہے ورنہ اگر انسان نجات پا کر بعض چیزوں کو چاہتا رہا اور ان کے غم میں کباب ہوتا اور جلتا رہا مگر وہ چیزیں اس کو نہ ملیں تو پھر نجات کاہے کی ہوئی۔ ایک قسم کا عذاب تو ساتھ ہی رہا۔ لہٰذا ضرور ہے کہ جنت یا بہشت یا مکتی خانہ یا سرگ جو نام اس مقام کا رکھا جائے جو انتہائے سعادت پانے کا گھر ہے وہ ایسا گھر چاہئے کہ انسان کو من کل الوجوہ اس میں مصفا خوشی حاصل ہو اور کوئی ظاہری یا باطنی رنج کی بات درمیان نہ ہو اور کسی ناکامی کی سوزش دل پر غالب نہ ہو۔ ہاں یہ سچ بات ہے کہ بہشت میں نالائق و نامناسب باتیں نہیں ہوں گی۔ مگر مقدس دلوں میں ان کی خواہش بھی پیدا نہ ہوگی بلکہ ان مقدس اور مطہر دلوں میں جو شیطانی خیالات سے پاک کئے گئے ہیں انسان کی پاک فطرت اور خالق کی پاک مرضی کے موافق پاکیزہ خواہشیں پیدا ہوں گی تا انسان اپنی ظاہری اور باطنی اور بدنی اور روحانی سعادت کو پورے