طور پر پا لیوے اور اپنے جمیع قویٰ کے کامل ظہور سے کامل انسان کہلاوے کیونکہ بہشت میں داخل کرنا انسان نفس کے مٹا دینے کی غرض سے نہیں جیسا کہ ہمارے مخالف عیسائی اور آریہ خیال کرتے ہیں بلکہ اس غرض سے ہے کہ تا انسانی فطرت کے نقوش ظاہراً و باطناً بطور کامل چمکیں اور سب بے اعتدالیاں دور ہو کر ٹھیک ٹھیک وہ امور جلوہ نما ہو جائیں جو انسان کامل کے لئے بلحاظ ظاہری و باطنی خلقت اس کے ضروری ہیں۔ اور پھر فرمایا کہ جب میرے مخصوص ندے (جو برگزیدہ ہیں) میرے بارے میں سوال کریں اور پوچھیں کہ کہاں ہیں تو انہیں معلوم ہو کہ میں بہت ہی قریب ہوں اپنے مخلص بندوں کی دعا سنتا ہوں جبھی کہ کوئی مخلص بندہ دعا کرتا ہے (خواہ دل سے یا زبان سے) سن لیتا ہوں (پس اسی سے قرب ظاہر ہے) مگر چاہئے کہ وہ اپنی ایسی حالت بنائے رکھیں جس سے میں ان کی دعائیں سن لیا کروں۔ یعنی انسان اپنا حجاب آپ ہو جاتا ہے اور سچے متبع کے مقابل پر اگر کوئی عیسائی یا آریہ یا یہودی قبولیت کے آثار و انوار دکھلانا چاہے تو یہ اس کے لئے ہرگز ممکن نہ ہوگا ایک نہایت صاف طریق امتحان کا یہ ہے کہ اگر ایک مسلمان صانع کے مقابل پر جو سچا مسلمان اور سچائی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع ہو کوئی دوسرا شخص عیسائی وغیرہ معارضہ کے طور پر کھڑا ہو اور یہ کہے کہ جس قدر تجھ پر آسمان سے کوئی نشان ظاہر ہوگا یا جس قدر اسرارِ غیبیہ تجھ پر کھلیں گے یا جو کچھ قبولیت دعاؤں سے تجھے مدد دی جائے گی یا جس طور سے تیری عزت اور شرف کے اظہار کے لئے کوئی نمونہ قدرت ظاہر کیا جائے گا یا اگر انعامات خاصہ کا بطور پیش گوئی تجھے وعدہ دیا جائے گا یا اگر تیرے کسی موذی مخالف پر کسی تنبیہ کے نزول کی خبر دی جائے گی تو اُن سب باتوں میں جو کچھ تجھ سے ظہور میں آ جائے گا اور جو کچھ تود کہا جائے گا وہ میں بھی دکھلاؤں گا تو ایسا معارضہ کسی مخالف سے ہرگز ممکن نہیں اور ہرگز مقابل پر نہیں آئیں گے کیونکہ اُن کے دل شہادت دے رہے ہیں کہ وہ کذاب ہیں انہیں اس سچے خدا سے کچھ بھی تعلق نہیں کہ جو راستبازوں کا مددگار اور صدیقوں کا دوستدار ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی کسی قدر بیان کر چکے ہیں۔ وھذا اخر کلا منا والحمدللّٰہ اولاد اخر و ظاہرا و باطنا ھومولینا نعم المولی ونعم الوکیل۔