(۳) تیسری یہ کہ اکثر وہ دعائیں جو قبول کی جاتی ہیں نہایت درجہ کی اور پیچیدہ کاموں کے متعلق ہوتی ہیں جن کی قبولیت سے کھل جاتا ہے کہ یہ انسان کا کام اور تدبیر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ایک خاص نمونہ قدرت ہے جو خاص بندوں پر ظاہر ہوتا ہے۔ (۴) چوتھی یہ کہ ابتلائی دعائیں تو کبھی کبھی شاذو نادر کے طور پر قبول ہوتی ہیں لیکن اصطفائی دعائیں کثرت سے قبول ہوتی ہیں۔ بسا اوقات صاحب اصطفائی دعا کا ایسی بڑی بڑی مشکلات میں پھنس جاتا ہے کہ اگر اور شخص ان میں مبتلاہو جاتا تو بجز خودکشی کے اور کوئی حیلہ اپنی جان بچانے ہرگز اُسے نظر نہ آتا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوتا بھی ہے کہ جب کبھی دنیا پرست لوگ جو خدا تعالیٰ سے مہجور و دور ہیں بعض بڑے بڑے ہموم و غموم و امراض و اسقام و بلیات لاینحل میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو آخر وہ بباعث ضعف ایمان خدا تعالیٰ سے ناامید ہو کر کسی قسم کا زہر کھا لیتے ہیں یا کنوئیں میں گرتے ہیں یا بندوق وغیرہ سے خود کشی کر لیتے ہیں لیکن ایسے نازک وقتوں میں صاحب اصطفاء کا بوجہ اپنی قوت ایمانی اور تعلق خاص کے خدا تعالیٰ کی طرف سے نہایت عجیب در عجیب مدد دیا جاتا ہے اور عنایت الٰہی ایک عجیب طور سے اس کا ہاتھ پکڑ لیتی ہے یہاں تک کہ ایک محرم راز کا دل بے اختیار بول اُٹھتا ہے کہ یہ شخص مؤید الٰہی ہے۔ (۵) پانچویں یہ کہ صاحب اصطفائی دعا کا مورد عنایات الٰہیہ کا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کے تمام کاموں میں اس کا متولی ہو جاتا ہے اور عشق الٰہی کا نور اور مقبولانہ کبریائی کی مستی --------------------------------- (بقیہ حاشیہ ) کر کے جس طرح عیسائیوں کی طبیعتوں نے پلٹا کھایا ہے وہ وہی ہے کہ شراب خوری بکثرت پھیل گئی۔خدا تعالیٰ کی عبادت سچی ایسے کرنا اور کلی روبحق ہونا یہ سب باتیں موقوف ہوگئیں ہاں انتظامی تہذیب یورپ میں بے شک پائی جاتی ہے۔ یعنی باہم رضامندی کے برخلاف جو گناہ ہیں جیسے سرقہ اور قتل اور زنا بالجبر وغیرہ جن کے ارتکاب سے شاہی خوانین نے بوجہ مصالح ملکی روک دیا ہے ان کا انسداد بے شک ہے مگر ایسے گناہوں کے انسداد کی یہ وجہ نہیں کہ مسیح کے کفّارہ کا اثر ہوا ہے بلکہ رعب قوانین اور سوسائٹی کے دباؤ نے یہ اثر ڈالا ہوا ہے کہ اگر یہ موانع درمیان نہ ہوں تو حضرات مسیحیاں سب کچھ کر گزریں اور پھر یہ جرائم بھی تو اور ملکوں کی طرح ------------------- یورپ میں بھی ہوتے رہتے ہیں انسداد کلی تو نہیں۔