اس جگہ یہ نکتہ یاد رکھنے کے لائق ہے کہ دعا کا قبول ہونا دو طور سے ہوتا ہے ایک بطور ابتلا اور ایک بطور اصطفاء بطور ابتلا تو کبھی کبھی گنہگاروں اور نافرمانوں بلکہ کافروں کی دعا بھی قبول ہو جاتی ہے۔ مگر ایسا قبول ہونا حقیقی قبولیت پر دلالت نہیں کرتا بلکہ از قبیل استدراج و امتحان ہوتا ہے۔ لیکن جو بطور اصطفا دعا قبول ہوتی ہے اس میں یہ شرط ہے کہ دعا کرنے والا خدائے تعالیٰ کے برگزیدے بندوں میں سے ہو اور چاروں طرف کے برگزیدگی کے انوار و آثار اس میں ظاہر ہوں کیونکہ خداتعالیٰ حقیقی قبولیت کے طور پر نافرمانوں کی دعا ہرگز نہیں سنتا بلکہ انہیں کی سنتا ہے کہ جو اس کی نظرمیں راستباز اور اس کے حکم پر چلنے والے ہوں۔ سو ابتلا اور اصطفاء کی قبولیت ادعیہ میں مابہ الامتیاز یہ ہے کہ جو ابتلا کے طور پر دعا قبول ہوتی ہے اس میں متقی اور خدا دوست ہونا شرط نہیں اور نہ اس میں یہ ضرورت ہے کہ خدا تعالیٰ دعا کو قبول کر کے بذریعہ اپنے مکالمہ خاص کے اس کی قبولیت سے اطلاع بھی دیوے اور نہ وہ دعائیں ایسی اعلیٰ پایہ کی ہوتی ہیں جن کا قبول ہونا ایک امر عجیب اور خارق عادت متصور ہو سکے لیکن جو دعائیں اصطفاء کی وجہ سے قبول ہوتی ہیں ان میں یہ نشانیاں نمایاں ہوتی ہیں۔ (۱) اوّل یہ کہ دعا کرنے والا ایک متقی اور راست باز اور کامل فرد ہوتا ہے۔ (۲) دوسرے یہ کہ بذریعہ مکالمات الٰہیہ اس دعا کی قبولیت سے اس کو اطلاع دی جاتی ہے۔ کی وارداتیں واقعہ ہوتی رہتی ہیں کہ ہر ایک سال اُن کا ایک مہلک وبا پڑتا ہے (یکم فروری ۱۸۸۳ء رہبر ہند لاہور) اسی طرح ایک صاحب نے لنڈن کی عام زناکاری اور فریب ستر ستر ہزار کے ہر سال ولدالزنا کا پیدا ہونا ذکر کر کے وہ باتیں ان لوگوں کی بے حیائی کی لکھی ہیں کہ جن کی تفصیل سے قلم رُکتا ہے بعض نے یہ بھی لکھا ہے کہ یورپ کو اوّل درجہ کے مہذب اور تعلیم یافتہ لوگوں کے اگر دس حصے کئے جائیں تو بلاشبہ نوحصے ان میں سے دہریہ ہوں گے جو مذہب کی پابندی اور خدا تعالیٰ کے اقرار اور جزاوسزا کے اعتقاد سے فارغ ہو بیٹھے ہیں اور یہ مرض دہریت کا دن بدن یورپ میں بڑھتا جاتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ دولت برطانیہ کی کشادہ دلی نے اس کی ترقی سے کچھ بھی کراہت نہیں کی۔ یہاں تک کہ بعض پکے دہریہ پارلیمنٹ کی کرسی پر بھی بیٹھ گئے اور کچھ پرواہ نہیں کی گئی۔ نامحرم لوگوں کا نوجوان عورتوں کا بوسہ لینا صرف جائز