یا چاند بادل کے اندر کیونکر سما سکتا ہے اور کیا سورج نے باوجود اپنی اس تیز حرکت کے جس سے وہ ہزار ہا کوس ایک دن میں طے کر لیتا ہے۔ ایک پہر میں فقط بقدر نیز کے اتنی مسافت طے کری ہے اور نہ رکابی پلاؤ کی کھانے یا پیالہ شربت کا پینے سے کوئی یہ خیال کر سکتا ہے کہ رکابی اور پیالہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھا لیا ہوگا بلکہ یہ سمجھیں گے کہ جو ان کے اندر چاول اور پانی ہے وہی کھایا پیا ہوگا۔ نہایت صاف بات پر اعتراض کرنا کوئی مخالف بھی پسند نہیں کرتا۔ انصاف پسند عیسائیوں سے ہم نے خود سنا ہے کہ ایسے ایسے اعتراض ہم میں سے وہ لوگ کرتے ہیں جو بے خبر یا سخت درجہ کے متعصب ہیں۔ بھلا یہ کیا حق روی ہے؟ کہ اگر کلام الٰہی میں مجاز بااستعارہ کی صورت پر کچھ وارد ہو تو اس بیان کو حقیقت پر حمل کر کے … اعتراض بنایا جاوے اس صورت میں کوئی الہامی کتاب بھی اعتراض سے نہیں بچ سکتی۔ جہاز میں بیٹھنے والے اور اگنبوٹ پر سوار ہونے والے ہر روز یہ تماشا دیکھتے ہیں کہ سورج پانی میں سے ہی نکلتا ہے اور پانی میں ہی غروب ہوتا ہے اور صدہا مرتبہ آپس میں جیسا دیکھتے ہیں بولتے بھی ہیں کہ وہ نکلا اور غروب ہوا۔ اب ظاہر ہے کہ اس بول چال کے وقت میں علم ہیئت کے دفتر اُن کے آگے کھولنا اور نظام شمسی کا مسئلہ لے بیٹھنا گویا یہ جواب سننا ہے کہ اے پاگل کیا یہ علم تجھے ہی معلوم ہے۔ ہمیں معلوم نہیں۔
عیسائی صاحب نے قرآن شریف پر تو اعتراض کیا۔ مگر انجیل کے وہ مقامات جن پر حقًّا و حقیقتاً اعتراض ہوتا ہے بھولے رہے۔ مثلاً بطور نمونہ دیکھو کہ انجیل متی و مرقس میں لکھا ہے کہ مسیح کو اس وقت آسمان سے خلق اللہ کی عدالت کے لئے اُترتا دیکھو گے جب سورج اندھیرا ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہیں دے گا اور ستارے آسمان سے گر جائیں گے۔ اب ہیئت کاعلم ہی نہ اشکال پیش کرتا ہے کہ کیونکر ممکن ہے کہ تمام ستارے زمین پر گر پڑیں اور سب ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین کے کسی گوشہ میں جا پڑیں اور بتی آدم کو ان کے گرنے سے کچھ بھی حرج اور تکلیف نہ پہنچے اور سب