لے بیٹھنا بالکل بے محل نہیں تو اور کیا ہے؟ مثلاً اگر کوئی کہے کہ آج رات بادل وغیرہ سے آسمان خوب صاف ہو گیا تھا اور ستارے آسمان کے نقطوں کی طرح چمکتے ہوئے نظر آتے تھے اور اس سے یہ جھگڑا لے بیٹھیں کہ کیا ستارے لفظوں کی مقدار پر ہیں اور ہیئت کی کتابیں کھول کر پیش کریں تو بلاشبہ یہ حرکت بے خبروں کی سی حرکت ہوگی کیونکہ اس وقت متکّلم کی نیت میں واقعی امر کا بیان کرنا مقصود نہیں وہ تو صرف مجازی طور پر جس طرح ساری دنیا جہان بولتا ہے بات کر رہا ہے۔ اے وہ لوگ جو عشائے ربّانی میں مسیح کا لہو پیتے اور گوشت کھاتے ہو کیا ابھی تک تمہیں مجازات اور استعارات کے استعمال کانہایت وسیع دروازہ کھلا ہے اور وحی الٰہی انہیں محاورات و استعارات کے استعمال کا نہایت وسیع دروازہ کھلا ہے اور وحی الٰہی انہیں محاورات و استعارات کو اختیار کرتی ہے جو سادگی سے روز مرہ عوام الناس نے اپنے روز مرہ کی بات چیت اور بول چال میں اختیار کر رکھی ہے فلسفہ کی دقیق اصطلاحات کی ہر جگہ اور ہر محل میں پیروی کرنا وحی کی طرز نہیں کیونکہ روئے سخن عوام الناس کی طرف ہے پس ضرور ہے کہ ان کی سمجھ کے موافق اور ان کے محاورات کے لحاظ سے بات کی جائے۔ حقائق و دقائق کا بیان کرنا بجائے خود ہے مگر محاورات کا چھوڑنا اور مجازات اور استعارات عادیہ سے یک لخت کنارہ کش ہونا ایسے شخص کے لئے ہرگز روا نہیں جو عوام الناس کے مذاق پر بات کرنا اس کا فرض منصب ہے تا وہ اس کی بات کو سمجھیں اور ان کے دلوں پر اس کا اثر ہو لہٰذا یہ مسلم ہے کہ کوئی ایسی الہامی کتاب نہیں۔ جس میں مجازات اور استعارات سے کنارہ کیا گیا ہو یا کنارہ کرنا جائز ہو کیا کوئی کلام الٰہی دنیا میں ایسا بھی آیا ہے؟ اگر ہم غور کریں تو ہم خود ہر روزہ بول و چال میں صدہا مجازات و استعارات بولے جاتے ہیں اور کوئی بھی ان پر اعتراض نہیں کرتا۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ ہلال بال سا باریک ہے اور ستارے نقطہ سے ہیں یا چاند بادل کے اندر چھپ گیا اور سورج ابھی جوجو پھر دن چڑھا ہے نیز پھر اوپر آیا ہے یا ہم نے ایک رکابی پلاؤ کی کھا لی یا ایک پیالہ شربت کا پی لیا تو ان سب باتوں سے کسی کے دل میں یہ دھڑکا شروع نہیںہو تا کہ ہلال کیونکر بال سا باریک ہو سکتا ہے اور ستارے کس وجہ سے بقدر نقطوں کے ہو سکتے ہیں