کچھ نہیں لکھا کہ وہ بیان کیوں غلط ہے اور اس کے مقابل پر صحیح کونسا بیان ہے اور اس کی صحت پر کون سے دلائل ہیں تا اس کے دلائل پر غور کی جاتی اور جواب شافی دیا جائے۔ اگر معترض کو فرقانی بیان پر کچھ کلام تھا تو اس کے وجوہات پیش کرنے چاہئیں تھے۔ بغیر پیش کرنے وجوہات کے یونہی غلط ٹھہرانا متلاشی حق کا کام نہیں ہے۔ تیسری غلط فہمی معترض کے دل میں یہ پیدا ہوئی ہے کہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ ایک بادشاہ (جس کی سیر و سیاست کا ذکر قرآن شریف میں ہے) سیر کرتا کرتا کسی ایسے مقام تک پہنچا جہاں اُسے سورج دلدل میں چھپتا نظر آیا۔ اب عیسائی صاحب مجازی سے حقیقت کی طرف رُخ کر کے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ سورج اتنا بڑا ہو کر ایک چھوٹے سے میں کیونکر چھپ گیا۔ یہ ایسی بات ہے کہ جیسے کوئی کہے کہ انجیل میں مسیح کو خدا کا برّہ لکھا ہے یہ کیونکر ہو سکتا ہے۔ بّرہ تو وہ ہو سکتا ہے جس کے سر پر سینگ اور بدن پر پشم وغیرہ بھی ہو اور چاریوں کی طرح سرنگون چلتا اور وہ چیزیں کھاتا ہو جو برّے کھایا کرتے ہیں؟ اے صاحب آپ نے کہاں سے اور کس سے سن لیا کہ قرآن شریف تو فقط بمنصب نقل خیال اس قدر فرماتا ہے کہ اس شخص کو اس کی نگاہ میں سورج دلدل میں چھتا ہوا نظر آیا سو یہ تو ایک شخص کی رویت کا حال بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایسی جگہ پہنچا جس جگہ سورج کسی پہاڑ یا آبادی یا درختوں کی اوٹ میں چھپتا ہوا نظر آتا تھا۔ جیسا کہ عام دستور ہے بلکہ دلدل میں چھپتا ہوا معلوم دیتا تھا۔ مطلب یہ کہ اُس جگہ کوئی آبادی یا درخت یا پہاڑ نزدیک نہ تھے بلکہ جہاں تک نظر وفا کرے ان چیزوں میں سے کسی چیز کا نشان نظر نہیں آتا تھا۔ فقط ایک دلدل تھا جس میں سورج چھپتا دکھائی دیتا تھا۔ ان آیات کا سیاق سباق دیکھو کہ اس جگہ حکیمانہ تحقیق کا کچھ ذکر بھی ہے۔ فقط ایک شخص کی دور دراز سیاحت کا ذکر ہے اور ان باتوں کے بیان کرنے سے اسی مطلب کا اثبات منظور ہے کہ وہ ایسے غیر آباد مقام پر پہنچا۔ سو اس جگہ ہیئت کے مسائل